واضح رہے کہ گزشتہ روز محکمہ انسداد دہشتگردی اور گولڑہ پولیس اسٹیشن میں درج 2 ایف آئی آرز میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں نے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد کے باہر پولیس پر حملہ کیا اور بدامنی پیدا کی۔
پی ٹی آئی سربراہ و دیگر رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 148، 149، 186، 353، 380، 395، 427، 435، 440 اور 506 شامل کی گئی تھیں۔
ایف آئی آرز میں الزام عائد کیا گیا کہ پی ٹی آئی کارکنوں نے گاڑیوں کو آگ لگائی اور پولیس کی گاڑی سے اسلحہ اور ایک وائرلیس سیٹ چوری کر لیا۔
ایف آئی آر میں نامزد پی ٹی آئی رہنماؤں میں اسد عمر، اسد قیصر، حماد اظہر، علی امین گنڈا پور، علی نواز اعوان، مراد سعید، شبلی فراز، حسن خان نیازی، عمر ایوب خان، امجد خان نیازی، خرم نواز، جمشید مغل، عامر کیانی، فرخ حبیب، ڈاکٹر شہزاد وسیم، عمر سلطان اور عمران خان کے چیف سیکیورٹی آفیسر محمد عاصم بھی شامل تھے۔
دریں اثنا پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے بھی اسلام آباد میں درج مقدمے میں حفاظتی ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔
شاہ محمود قریشی نے تھانہ کاہنہ اسلام آباد کے مقدمے میں ضمانت کی درخواست دائر کی ہے۔
مذکورہ مقدمہ انسداد دہشتگری دفعات کے تحت 14 مارچ کو درج کیا گیا تھا، جس میں شاہ محمود قریشی نے 15 روز کی حفاظتی ضمانت کی استدعا کی ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ حفاظتی ضمانت منظور کرے۔
عمران خان کو پارٹی سربراہی سے ہٹانے کے لیے الیکشن کمیشن کے نوٹس کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی گئی ہے۔
عمران خان کی جانب سے دائر درخواست پر جسٹس شاہد بلال حسن کی زیرِ سربراہی لاہور ہائی کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ 21 مارچ بروز بدھ عمران خان کی درخواست پر سماعت کرے گا۔
بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس شمس محمود مرزا، جسٹس جواد حسن، جسٹس شاہد کریم اور جسٹس شہرام سرور شامل ہیں۔
واضح رہے کہ رواں برس 4 جنوری کو عمران خان نے پارٹی چیئرمین شپ سے ہٹانے کے لیے الیکشن کمیشن کا نوٹس لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
سابق وزیر اعظم نے درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ الیکشن کمیشن دائرہ اختیار سے تجاوز کر کے الیکشن ٹربیونل کا اختیار استعمال نہیں کر سکتا، الیکشن کمیشن قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر کسی رکن اسمبلی کو نااہل نہیں کر سکتا۔
درخواست میں دعوٰی کیا گیا تھا کہ عمران خان کو نااہل کہنا بلاجواز اور غیر قانونی ہے، عمران خان کو پاکستان کی سیاست سے دور رکھنے کے لیے نوٹس جاری کیا گیا، آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کو کہیں بھی جھوٹا قرار نہیں دیا۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ الیکشن کمیشن کا نوٹس غیر قانونی قرار دے کر کالعدم کیا جائے اور درخواست پر حتمی فیصلے تک نوٹس معطل کرکے الیکشن کمیشن کو عمران خان کے خلاف کارروائی سے روکا جائے۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں۔
گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔
آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔
عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔
بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔
جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔
اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔
چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیجا تھا۔
بعدازاں رواں برس 31 جنوری کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔