اسلام آباد(سچ خبریں) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاک افغان سرحد پر باڑ اکھاڑنے اور معاملے کو اچھالنے کا ذمے دار کچھ شرپسند عناصر کو قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ باڑ لگانے کے حوالے سے کچھ الجھنیں ہیں لیکن اس معاملے پر افغان حکومت سے بات کی جا رہی ہے۔
وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ پچھلے کچھ دنوں میں اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں اور ہم نے اس معاملے کو افغان حکومت کے ساتھ سفارتی سطح پر اٹھایا ہے۔
یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر ویڈیوز زیر گردش ہیں جس میں طالبان کو پاک افغان سرحد پر لگائی گئی باڑ کے ایک حصے کو اکھاڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کچھ شرپسند عناصر اس مسئلے کو غیر ضروری طور پر اچھال رہے ہیں لیکن ہم اس پر غور کر رہے ہیں اور افغان حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں، امید ہے ہم اس مسئلے کو سفارتی طور پر حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
سوشل میڈیا پر گزشتہ ماہ گردش کرنے والی ایک علیحدہ ویڈیو میں طالبان اہلکاروں کو خاردار تاروں کو اکھاڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا اور اس ویڈیو میں ایک ایک سینئر اہلکار نے کچھ فاصلے پر پاکستانی سیکیورٹی چوکیوں پر تعینات پاکستانی فوجیوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ سرحد پر دوبارہ باڑ لگانے کی کوشش نہ کریں۔
افغان وزارت دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی نے باڑ لگانے کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے بیان میں کہا تھا کہ اتوار کو طالبان فورسز نے پاکستانی فوج کو مشرقی صوبے ننگرہار کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے سے روک دیا تھا۔
پاکستان نے افغانستان کے احتجاج کے باوجود برطانوی دور میں کی گئی حد بندی کی بنیاد پر 2600کلومیٹر طویل سرحد کے اکثر حصے پر باڑ لگا دی ہے۔
پاکستان اور امریکی حمایت یافتہ سابقہ افغان حکومتوں کے درمیان خراب تعلقات کی بنیادی وجہ سرحد پر باڑ لگانا تھا اور موجودہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اسلام آباد سے قریبی تعلقات کے باوجود یہ مسئلہ طالبان کے لیے ایک متنازع معاملہ ہے۔
دوسری جانب افغان طالبان نے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے سرحد پر باڑ لگانے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا۔
اتوار کو اپنے یوٹیوب چینل پر بیان میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے، باڑ لگانے سے قوموں میں دراڑ پڑتی ہے اور یہ قوم کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا تھا اس لیے باڑ لگانے کی ضرورت نہیں تھی، یہ ہمارے دور میں نہیں لگائی گئی لیکن بدقسمتی سے اسے نصب کیا گیا حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
ذبیح اللہ نے کہا کہ سرحد کے دونوں طرف رہنے والے لوگ آپس میں رشتہ دار اور اچھے دوست ہیں اور باڑ لگا کر دو بھائیوں کے درمیان رکاوٹیں کھڑی نہیں کرنی چاہئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈیورنڈ لائن نے دونوں طرف ایک قوم کو تقسیم کر دیا ہے لیکن ہم ایسا بالکل نہیں چاہتے، ہم مسئلے کا منطقی حل چاہتے ہیں۔
دریں اثنا افغان وزارت دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی نے پیر کو ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ سرحد کے دونوں طرف ایک ہی قوم رہتی ہے اور ایک قوم کے درمیان خلیج پیدا کرنا منطقی طور پر مناسب نہیں ہے۔
تاہم افغان طالبان اور حکام کے اس دعوے کے برعکس پاکستانی سیکیورٹی اہلکار نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ طالبان کا افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانے کا دعویٰ غلط ہے۔سیکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسمگلر طالبان کو باڑ کو ہٹانے پر مجبور کررہے ہیں
ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ افغان بادشاہ عبدالرحمٰن خان اور برطانوی دور کے متحدہ ہندوستان کے سیکریٹری خارجہ سر مورٹیمر ڈیورنڈ کے درمیان 1893 میں ہوا تھا، ڈیورنڈ لائن مکمل طور پر پوری باہمی سرحد نہیں بلکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجودہ سرحد کا حصہ ہے۔
افغانستان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان نے باڑ ان کی سرحد پر لگائی ہے لیکن ان کے دعوے کے برعکس پاکستان کا مستقل موقف ہے کہ پاکستان نے اپنی ہی سرحد پر باڑ نصب کی ہے۔پاکستان نے 2600 کلومیٹر طویل اور غیرمحفوظ سرحد سے عسکریت پسندوں کی سرحد پار نقل و حرکت روکنے کے لیے باڑ لگانے کا عمل شروع کیا تھا۔