پشاور: (سچ خبریں) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران تشدد کے خلاف حکومت خیبرپختونخوا نے 3 روزہ سوگ کا اعلان کردیا جب کہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے اسپیکر بابر سلیم سواتی نے دعویٰ کیا ہے کہ ہمارے کارکنان شہید ہوئے، ان کی لاشیں چھپائیں گئیں، ڈھٹائی کے ساتھ ادارے جھوٹ بول رہے ہیں۔
اپنی زیر صدارت ہونے خیبرپختوبخوا اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بحیثیت اسپیکر گرفتہ دل کے ساتھ کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ تاریخ گواہ ہے جب کسی نے آئین کی بالا دستی کے لیے آواز اُٹھائی، اسے کچلا گیا، فلسطین کی مثال دی جاتی ہے وہی صورتحال اسلام آباد میں دیکھی گئی، کارکنان پر اسنائپر اور دیگر جدید اسلحہ استعمال کیا گیا۔
اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی نے کہا کہ باریش نماز پڑھنے والے کارکن کو کنٹینر سے پھینکا گیا، جو کارکنان شہید ہوئے، ان کی لاشیں چھپائیں گئیں، ڈھٹائی کے ساتھ ادارے جھوٹ بول رہے ہیں۔
بابر سلیم سواتی نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کو قتل کرنے کی کوشش کی گی، وزیر اعلیٰ پر سیدھی فائرنگ کی گئی تو وہ وہاں سے چلے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے تجربات سے ہم پہلے بھی مشرقی پاکستان میں گزر چکے ہیں، آج مشرقی پاکستان کے تجربات مغربی پاکستان میں دھرائے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا آئین پر امن احتجاج کا حق دیتا ہے، بد قسمتی سے پاکستان میں روز اول سے اداروں نے، مقتدر حلقوں نے جبر سے یہ حق اپنی عوام سے چھین رکھا ہے اور اس ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی بھی کسی بھی سیاسی قوت نے اس ملک کے اندر آئین کی سربلندی کے لیے آواز اٹھائی، باہر نکلے تو ان کو بے دردی سے کچلا گیا۔
اجلاس کے دوران کُرم اور اسلام آباد میں احتجاج کے دوران جاں بحق افراد کے لیے دعا کی گئی۔
اس دوران حکومت خیبرپختونخوا نے اسلام آباد احتجاج سے متعلق 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا، وزیر قانون آفتاب عالم نے کہا کہ کل سے 3 روزہ سوگ ہوگا، ورکرز کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان پر سیدھا فائر کیا گیا۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی اور دیگر مطالبات کی منظوری کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کیا تھا۔
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کے لیے 24 نومبر کو بانی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے پشاور سے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تھا اور 25 نومبر کی شب وہ اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے تھے تاہم اگلے روز اسلام آباد میں داخلے کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پی ٹی آئی کے حامیوں کی جھڑپ کے نتیجے میں متعدد افراد، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
26 نومبر کی شب بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور اور عمر ایوب مارچ کے شرکا کو چھوڑ کر ہری پور کے راستے مانسہرہ چلے گئے تھے، مارچ کے شرکا بھی واپس اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔
بدھ کو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا کے علاوہ سردار لطیف کھوسہ نے فورسز کے اہلکاروں کی ’مبینہ‘ فائرنگ سے ’متعدد ہلاکتوں‘ کا دعویٰ کیا تھا، تاہم وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے ان دعوئوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کچھ ہوا ہے تو ’ثبوت کہاں ہیں؟‘