ٹرمپ کی دوہری پالیسی، چین سے نرمی اور بھارت پر سختی کا راز

ٹرمپ

?️

ٹرمپ کی دوہری پالیسی چین سے نرمی اور بھارت پر سختی کا راز

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو خود کو "امن کا صدر قرار دیتے ہیں، ایک طرف چین جیسے بڑے حریف کے ساتھ مذاکرات اور مصالحت کا رویہ اختیار کر رہے ہیں، تو دوسری جانب بھارت پر بھاری محصولات لگا کر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ اس متضاد رویے نے بھارت کو اپنی خارجہ پالیسی میں نیا امتحان دے دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے بھارت اور پاکستان، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا، اور حتیٰ کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کیا ہے، اور اب وہ روس اور یوکرین کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، ان دعووں کو تمام فریقوں کی جانب سے پذیرائی نہیں ملی۔ بھارت نے ان کے کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جبکہ تھائی لینڈ نے بھی کسی امریکی یا چینی ثالثی کو قبول نہیں کیا۔

چین کے معاملے میں، اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان 2025 کے اوائل میں محصولات کی جنگ شدت اختیار کر گئی تھی اور امریکی درآمدات پر 55 فیصد تک اور چینی جوابی محصولات 32 فیصد تک پہنچ گئے تھے، لیکن ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں نرم لہجہ اختیار کیا ہے۔ وہ 145 فیصد ابتدائی محصولات کو انتہائی زیادہ قرار دے چکے ہیں اور اچھے معاہدے کی امید ظاہر کر رہے ہیں۔ امریکی وزیر خزانہ سمیت اعلیٰ حکام کی چینی ہم منصبوں سے ملاقاتیں اس بات کی علامت ہیں کہ واشنگٹن بیجنگ کے ساتھ تعلقات کو مکمل ٹوٹنے سے بچانا چاہتا ہے۔

دوسری طرف بھارت کے لیے رویہ بالکل مختلف ہے۔ امریکی حکومت نے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد محصولات لگا دیے ہی جن میں سے نصف بھارت کے روس سے تیل کی خریداری پر سزا کے طور پر اور باقی نصف بھارتی منڈیوں کے امریکی زرعی اور ڈیری مصنوعات کے لیے بند ہونے پر عائد کیے گئے ہیں۔ بھارت کو 27 اگست تک ان پابندیوں کا جواب دینا ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق اس دوہری پالیسی کی کئی وجوہات ہیں:بھارت کا امریکی ثالثی کو تسلیم نہ کرنا، خاص طور پر پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں کمی کے معاملے پر۔

امریکا میں داخلی دباؤ، خصوصاً چین کی جانب سے نایاب معدنیات کی برآمدات میں کمی، جس نے واشنگٹن کو بیجنگ کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کیا۔انتخابی سیاست، جس میں ٹرمپ امریکی ملازمتوں کی واپسی اور تجارتی خسارہ کم کرنے کے وعدوں کو آگے بڑھانے کے لیے بھارت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

بھارت نے بھی جوابی اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ روس کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کی توثیق کی گئی ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے چین کا دورہ طے کر لیا ہے، جو بھارت کی اسٹریٹجک خودمختاری اور کثیرالجہتی پالیسی کا اشارہ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے لیے اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ امریکا سے مذاکرات کرے لیکن فوری رعایتیں نہ دے، اور داخلی اصلاحات کے ذریعے عالمی سطح پر اپنی پوزیشن مستحکم کرے۔

مشہور خبریں۔

صیہونی حکومت کی غنڈہ گردی کے خلاف حزب اللہ کی مقاومت جائز

?️ 25 نومبر 2021سچ خبریں:  اسلامی مقاومتی تحریک حماس کے ترجمان عبداللطیف القانو نے آسٹریلیا

صیہونی کابینہ کیسی ہے؟ سابق صیہونی عہدیدار کی زبانی

?️ 6 جنوری 2024سچ خبریں: صیہونی اپوزیشن کے سینئر رکن نے کابینہ کے وزیر کو

صہیونی لابی کی تیونس کو جال میں پھنسانے کی کوشش

?️ 25 جون 2022سچ خبریں:تیونس کی ٹریڈ یونین کے سکریٹری جنرل نے الجزائر کو پریشان

آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے میں تاخیر، اسٹاک مارکیٹ میں 537 پوائنٹس کی کمی

?️ 5 دسمبر 2022اسلام آباد: (سچ خبریں) آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کے نویں

لبنانی حکومت کے گلے میں امریکہ کا بلیڈ؛ اسرائیل سے براہ راست مذاکرات یا جنگ!

?️ 6 نومبر 2025سچ خبریں: اسی وقت جب اسرائیل کی طرف سے لبنان پر بڑے

فواد چوہدری نے پنجاب کے کسانوں کو مبارک باد دی

?️ 12 مئی 2021اسلام آباد (سچ خبریں) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے

حزب اللہ کے نئے سکریٹری جنرل کون ہیں؟

?️ 31 اکتوبر 2024سچ خبریں: حزب اللہ کے نئے سکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کی

تنازعہ کشمیر علاقائی امن ، پاک بھارت خوشگوار تعلقات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ، حریت کانفرنس

?️ 27 فروری 2025سرینگر: (سچ خبریں) بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے