سچ خبریں:عرب دنیا کے معروف تجزیہ کار عبدالباری عطوان نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ حال ہی میں مصر اور صیہونی حکومت کے درمیان غیر معمولی کشیدگی پیدا ہوئی ہے، اس بات پر زور دیا کہ مصریوں کو خود کفیل ہونے اور مزاحمت کی حمایت کے لیے ایران کی حکمت عملی اور تجربے کو استعمال کرنا چاہیے۔
عرب دنیا کے معروف تجزیہ کار اور انٹر ریجنل اخبار رائے الیوم کے ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے اپنے تازہ ترین کالم میں مصر اور صیہونی حکومت کے درمیان حال ہی میں سامنے آنے والے اختلافات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان دنوں مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں اکثر بحران کی خبریں آرہی ہیں ۔
انہوں نے لکھا کہ اس کشیدگی کو بیان کیا جاسکتا ہے کہ صیہونی حکومت کے پریس اور ٹیلی ویژن چینلوں نے مصری حکام کے خلاف سخت مؤقف اپنایا ہے، جن میں سے تازہ ترین حملہ گزشتہ ہفتے منگل کو ہوا، جب اسرائیل ہیوم اخبار اور اسرائیل ٹی وی چینل 7 سمیت متعدد عبرانی میڈیا اداروں نے مصری حکام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
مصری حکام کے خلاف صہیونی میڈیا کا یہ حملہ اس بہانے کیا گیا کہ مصری حکام نے مصری شہریوں اور تاجروں کے مقبوضہ فلسطین میں داخلے یا اسرائیلیوں کے مصر میں داخلے پر روک لگا دی ہے یا کم از کم وہ اس عمل میں سختی برت رہے ہیں، اس کے علاوہ جو بھی مصری شہری صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے یا مقبوضہ فلسطین کا سفر کرنا چاہتا ہے، اسے گرفتار کیا جا سکتا ہے؛ جیسا کہ یوسف زیدان اور اس سے پہلے محمد رمضان کے ساتھ ہوا تھا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے بدھ کے روز مصر نے 4 طیاروں کے ساتھ مصر کی فضائی حدود میں داخل ہونے والے 11 اسرائیلی پائلٹوں کو ملک بدر کر دیا تھا اور اس کے علاوہ مصری حکام نے ان اسرائیلی پائلٹوں کے طیاروں کو واپس جانے کے لیے ایندھن فراہم نہیں کیا ، دریں اثنا صیہونی حکومت کے "کان” چینل نے خبر دی ہے کہ ان پائلٹوں کے پاس لینڈنگ کی اجازت تھی، بلاشبہ یہ معاملہ اب بھی غیر یقینی کی فضا میں ہے اور یہ واضح نہیں ہے کہ اسرائیلی پائلٹوں کو گرفتار کیا گیا یا انہیں مصر سے نکلنے کی اجازت دی گئی لیکن بہر صورت یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مصر کے شہر شرم الشیخ میں جو چند روز قبل منعقد ہونے والے موسمیاتی سربراہی اجلاس جس صیہونی حکومت کے سربراہ نے بھی شرکت کی تھی، میں اسرائیلی میڈیا کی موجودگی بہت محدود تھی اور کچھ ایک اسرائیلی چینلوں کے علاوہ دیگر صیہونی میڈیا کو مصری شہریوں سے انٹرویو لینے کی اجازت نہیں تھی، بہر حال کہا جا سکتا ہے کہ قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کی خبروں کی کوریج کے لیے صیہونیوں کی سرگرمی کے برعکس مصر میں اسرائیلی میڈیا کی موجودگی بہت کم تھی۔
البتہ ہمیں یہ بتانا ضروری ہے کہ اسرائیلی میڈیا کے قطر میں عرب شہریوں کے انٹرویوز کا نتیجہ بھی صہیونیوں کی خواہش کے برعکس نکلا کیونکہ ان شہریوں نے صحافیوں اور اسرائیلی میڈیا کے نمائندوں سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا، اس کے علاوہ جن ممالک کی حکومتیں اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لا چکی ہیں وہاں کے عرب شہری بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے صہیونی صحافیوں کے انٹرویو لینے سے انکار کیا۔
عطوان نے اپنے کالم میں مزید لکھا ہے کہ ان دنوں کچھ لوگ یہ بحث کر سکتے ہیں کہ اسرائیل اور مصر کے تعلقات مضبوط ہیں اور صحرائے سینا میں دونوں اطراف کی فوجوں کے درمیان ہم آہنگی ہے، البتہ ظاہری طور پر یہ سچ ہو سکتا ہے لیکن خفیہ طور پر صورت حال بالکل مختلف نظر آتی ہے، صیہونی حکومت کی فوجی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل مصری فوج کو اب بھی اپنی حکومت کو لاحق عظیم خطرات میں سے ایک سمجھتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ صیہونی حکام مصر اور بالخصوص اس کی فوج کو عراقی فوج کی طرح کمزور کرنا چاہتے ہیں۔