فرانس لیبیا میں اپنا کھویا ہوا اثر و رسوخ بحال کرنے کی کوشش میں

لیبیا

?️

فرانس لیبیا میں اپنا کھویا ہوا اثر و رسوخ بحال کرنے کی کوشش میں
 ایک عرب میڈیا رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فرانس حالیہ سفارتی سرگرمیوں اور لیبیا کے مختلف فریقین سے ملاقاتوں کے ذریعے اس ملک میں اپنے سیاسی و تزویراتی اثر و رسوخ کو دوبارہ مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
فرانس کی قیادت میں لیبیا کے بحران سے متعلق فریقین کے درمیان اجلاس منعقد کرانے کی کوششیں، جاری سیاسی جمود اور پیچیدہ داخلی صورت حال کے پیش نظر یہ سوالات پیدا کر رہی ہیں کہ آیا پیرس واقعی لیبیا کے معاملے میں اپنا سابقہ کردار بحال کر سکتا ہے یا نہیں۔
اسی سلسلے میں لیبیا میں فرانس کے نئے سفیر تیری ویلا نے ملک کے مختلف سیاسی فریقوں سے مسلسل ملاقاتیں کی ہیں، جن میں صدارتی کونسل کے سربراہ محمد المنفی بھی شامل ہیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد سیاسی بحران کے تعطل کو توڑنا اور سیاسی عمل کو زیادہ مؤثر سمت میں لے جانا بتایا جا رہا ہے۔
لیبیائی سفارت کار عثمان البدری نے ان تحرکات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ لیبیا کے یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات یکساں نوعیت کے نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر اٹلی کے ساتھ تعلقات خاص اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ جغرافیائی قربت اور معاشی روابط، بالخصوص لیبیا کی گیس پر انحصار، روم کو ملک میں استحکام کے لیے سرگرم کردار ادا کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فرانس کے ساتھ تعلقات نسبتاً مختلف نوعیت کے ہیں، کیونکہ پیرس اپنی سابقہ نوآبادیوں جیسے نائجر، مالی اور چاڈ میں اثر و رسوخ پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ ان کے مطابق فرانس کے لیبیا کے ساتھ سیاسی اور معاشی تعلقات متوازن ہیں اور اس ملک میں براہ راست فوجی عزائم نہیں رکھتا۔
عثمان البدری کے مطابق افریقہ میں فرانس کے اثر و رسوخ میں کمی کے باعث پیرس نے لیبیا میں بحران کے فریقین کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی، تاہم پارلیمنٹ اور اعلیٰ ریاستی کونسل کے درمیان اجلاس کرانے کی حالیہ کوشش اختلافات کے باعث ناکام رہی۔
دوسری جانب لیبیائی سیاسی تجزیہ کار حسام الفنیش کا کہنا ہے کہ فرانس کی حالیہ سیاسی سرگرمیاں دراصل اس اثر و رسوخ کی بحالی کی کوشش ہیں جو گزشتہ برسوں میں کمزور ہو چکا ہے، تاہم لیبیا کی پیچیدہ صورت حال اور متعدد داخلی و بین الاقوامی فریقوں کی موجودگی کے باعث فرانس کے لیے مؤثر کردار ادا کرنے کے مواقع محدود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پیرس اس وقت سفارتی، سیاسی اور معاشی ذرائع پر انحصار کر رہا ہے اور سلامتی سے متعلق محدود اور بالواسطہ آپشنز رکھتا ہے، لیکن براہ راست فوجی مداخلت ممکن نہیں کیونکہ ماضی میں اس کی ناکامی اور زیادہ لاگت ثابت ہو چکی ہے۔
الفنیش کے مطابق مشرقی اور مغربی لیبیا میں فرانس کی سرگرمیاں اور پارلیمنٹ کے اسپیکر عقیلہ صالح اور اعلیٰ ریاستی کونسل کے سربراہ محمد تکالہ سے ملاقاتیں فرانس کی دوہرے توازن پر مبنی حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہیں، جس کا مقصد مختلف فیصلہ ساز فریقوں کے درمیان توازن برقرار رکھنا اور ساتھ ہی لیبیا میں روس کے اثر و رسوخ کو کم کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فرانس طویل المدتی اثر و رسوخ کی بحالی کے لیے توانائی، تیل و گیس، بنیادی ڈھانچے اور تعمیر نو کے منصوبوں کو اہم معاشی اوزار کے طور پر استعمال کرنے کا خواہاں ہے تاکہ مستقبل کے کسی بھی سیاسی معاہدے میں اپنی جگہ یقینی بنا سکے۔
تجزیہ کار کے مطابق لیبیا کے معاملے میں فرانس کی عملی قوت اب بھی محدود ہے اور اس میں کامیابی محض علامتی ملاقاتوں سے آگے بڑھ کر ایک جامع حکمت عملی اپنانے سے مشروط ہے، جو متعدد مراکزِ فیصلہ سازی سے بیک وقت نمٹ سکے اور سیاسی جمود کو توڑ سکے۔
انہوں نے زور دیا کہ لیبیا اب ایسا ملک نہیں رہا جسے یکطرفہ طور پر کنٹرول کیا جا سکے، اور فرانس کا کوئی بھی ممکنہ کردار اس بات سے مشروط ہوگا کہ وہ شراکتی حکمت عملی کو قبول کرے، زمینی حقائق اور متعدد فریقوں کی موجودگی کو تسلیم کرے اور ماضی کے اثر و رسوخ کو بحال کرنے کے بجائے حقیقت پسندانہ اور لچکدار پالیسی اپنائے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل اقوام متحدہ میں الجزائر کے مستقل نمائندے عمار بن جامع نے زور دیا تھا کہ لیبیا سے تمام غیر ملکی افواج اور کرائے کے جنگجوؤں کے انخلا کے لیے عالمی دباؤ ڈالا جانا چاہیے، کیونکہ یہ اقدام لیبیا میں امن اور قومی خودمختاری کی ضمانت بن سکتا ہے۔
اسی طرح لیبیا کی صدارتی کونسل کے سربراہ محمد یونس المنفی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں واضح کیا تھا کہ ملک کے مسائل کا حل قومی خودمختاری کی بحالی اور ہر قسم کی غیر ملکی مداخلت کی مخالفت میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوامی مرضی کے بغیر مسلط کردہ کوئی بھی حل کامیاب نہیں ہو سکتا اور ماضی کی طرح ناکامی سے دوچار ہوگا۔
انہوں نے قومی سطح پر جامع اور سنجیدہ مکالمے، ریاستی اداروں کے اتحاد، عبوری مرحلے کے خاتمے اور آزاد و شفاف انتخابات کو لیبیا کے بحران سے نکلنے کا واحد راستہ قرار دیا۔

مشہور خبریں۔

سعودی عرب آرامکو کے پچاس ارب ڈالر کے حصص فروخت کرنے پر مجبور

?️ 8 فروری 2022سچ خبریں:وال اسٹریٹ جرنل نے سعودی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے

بلوچستان میں سیاسی بحران اسی طرح باقی ہے

?️ 25 ستمبر 2021اسلام آباد(سچ خبریں) چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جانب سے حریفوں کے

بیلجیم کے شہر وروے کا صیہونی حکومت سے تعلقات منقطع کرنے کا اعلان

?️ 1 جون 2023سچ خبریں:فلسطینی عوام کی حمایت میں بیلجیم کے شہر وروے نے صیہونی

بغداد میں جمعہ کے مظاہروں کے ساتھ صدر کا تصادم

?️ 11 اگست 2022سچ خبریں:    صدر تحریک کے رہنما سید مقتدی صدر کے قریبی

تیونس کے ساحل میں دردناک حادثہ، کشتی ڈوبنے سے 41 افراد ہلاک ہوگئے

?️ 17 اپریل 2021تیونس (سچ خبریں) تیونس کے ساحل میں ایک دردناک حادثہ پیش آیا

ہنیہ کے جانشین کے طور پر السنوار کے پیغامات

?️ 8 اگست 2024سچ خبریں: عراق کی سید الشہداء بریگیڈز کے سیکرٹری جنرل ابوآلاء الولائی

ٹرمپ: میں شاید مستقبل قریب میں چین کا دورہ کروں گا

?️ 23 جولائی 2025سچ خبریں: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ چینی صدر

امریکہ کی تیل کی چوری شامی عوام کے بحرانوں کا باعث

?️ 22 اگست 2022سچ خبریں:   شامی پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے شامی اور روس

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے