سچ خبریں:جن عرب ممالک نے 2020 میں صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کی تھی، انہیں بنیامین نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی کابینہ کے اقتدار سنبھالنے پر ایک سنگین چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
روئٹرز نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کو اب فلسطین کے بارے میں انتہا پسند صہیونیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے نعروں اور خالی تبصروں سے زیادہ اقدام کرنا چاہیے اس لیے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی کابینہ، جس نے گزشتہ ہفتے حلف اٹھایا تھا، انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل ہے جو مقبوضہ مغربی کنارے کو دوسرے مقبوضہ علاقوں میں الحاق کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جہاں فلسطینی طویل عرصے سے اپنے لیے ایک آزاد ریاست قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ مسئلہ مذکورہ بالا چار عرب ممالک کو ایک سنگین مسئلہ سے دوچار کرتا ہے کیونکہ اب انہیں اس کابینہ کے ساتھ تعاون اور فلسطینی کاز کی تاریخی حمایت کے دعوے کے درمیان توازن قائم کرنا ہوگا۔
روئٹرز کے مطابق اگرچہ نیتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ سیاسی میدان میں حتمی فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے، لیکن ان کی کابینہ کا مغربی کنارے میں بستیوں کی توسیع کے عزم اور انتہائی دائیں بازو کے ساتھ اتحاد فلسطینیوں کے ساتھ کسی بھی معاہدے کو روک دے گا۔
مثال کے طور پر نیتن یاہو کی کابینہ میں داخلی سلامتی کے وزیر "ایتمار بین گوئر”، جو پہلے ایک انتہا پسند صہیونی گروہ کے رکن تھے اور انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز صہیونی گروہ "کہانا” کے رکن کے طور پر کیا جو عرب مخالف سخت خیالات رکھتا تھا، نے گذشتہ منگل کو مسجد اقصیٰ کے احاطے پر حملہ کر کے فلسطینیوں کے غصے کو بھڑکا دیا نیز عرب ممالک اور عالمی برادری میں ان کے اس اقدام کے خلاف مذمت کی لہر دوڑ گئی۔
اس رپورٹ کے مطابق حکمران اتحاد میں نیتن یاہو کے ایک اور شراکت دار انتہائی دائیں بازو کی مذہبی صہیونی جماعت کے رہنما بیزلیل اسموٹریچ ہیں، جو بن گوئر کی طرح مغربی کنارے میں رہنے والے ایک آباد کار ہیں اور آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل تو دور کی بات وہ فلسطینیوں خود مختاری دینے کے بھی مخالف ہیں۔