سچ خبریں:یہ درست ہے کہ اس کا نام ریاستہائے متحدہ امریکہ ہے ،تاہم غنڈہ گردی اور قوموں پر ظلم کا وقت ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔
افغانستان سے فرار ہونے کے بعد سے امریکی غنڈہ گردی میں کمی نہیں آئی ہے بلکہ اس کی غنڈہ گردی میں اس وقت کمی آئی جب خلیج فارس کے علاقے سےاسے اپنے جنگی جہازوں واپس لے جانا پڑا جہاں یہ ایک طویل عرصے سے تعینات تھا لیکن آپریشن عین الاسد کے غیر متوقع نتائج سے خوفزدہ ہوکر بحیرہ عرب میں بھاگ گیا۔
واضح رہے کہ یہ ایک ایسا آپریشن تھا جس نےامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پاگل کر دیا اور اپنےبحری جہازوں کو دوسرے زون میں لے جانے پر مجبور کر دیاجبکہ چند ماہ قبل امریکی بحریہ کی مرکزی کمان نے اعلان کیا تھا کہ وہ بحیرہ عرب میں اپنے جنگی جہازوں کے ساتھ ساتھ بیلجیئم ، فرانس اور جاپان کے جنگی جہازوں کےساتھ مشقیں کر رہی ہے جس میں امریکہ اور شریک ممالک کے جھنڈے لگے ہوئے تھے، ان مشقوں میں فرانسیسی آبدوز "چارلس ڈی گالے” اور جہاز جس میں گائیڈڈ میزائل "یو ایس ایس پورٹ رائل” ، یو ایس ایس امفائبس اسلٹ شپ "یو ایس ایس میک کین آئی لینڈ” اور بیلجیئم کا جہاز "ایچ این ایل ایم ایس لیوپولڈ اول” اور جاپانی تباہ کن "اریکے” شامل تھے نیز اس کے ساتھ ساتھ فرانسیسی جہاز” Profans "نےبھی حصہ لیا۔
قابل ذکرہے کہ امریکہ-نیٹو جنگجو گروپ افغانستان سے حالیہ امریکی فرار کی زیادہ پرواہ نہیں کرتا کیونکہ یہ فرار جو کہ امریکی جنگی تاریخ کا ایک اہم مسئلہ ہے ، ابھرتی ہوئی طاقتوں کے طور پر روس اور چین کے مقابلے میں امریکہ کی نا اہلی اور کمزوری کو ظاہر کرتا ہے،تاہم ذرا بھی غور سے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی طاقت پہلے ہی زوال پذیر ہو چکی ہے ، دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ نو سال پہلے جب اس نے عراق میں قدم رکھا اور اسی طرح عالمی اقتصادی بحران کا سامنا کیا یہاں تک کہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اپنی صدارت کے آخری مرحلہ کے دوران سعودی عرب کے اس وقت کے بادشاہ سے 400 بلین ڈالر کی امداد مانگنے پر مجبور ہوے۔