سچ خبریں:افغانستان کے لیے سابق امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے جمہوری افغانستان بنانے میں اپنے ملک کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ طالبان سے نمٹنا اور اس گروپ کے ساتھ بتدریج معاہدہ بہترین آپشن ہے۔
طالبان کے ساتھ امریکی حکومت کے چیف مذاکرات کار کے طور پر استعفیٰ دینے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں خلیل زاد نے افغانستان سے انخلا پر بائیڈن انتظامیہ کی تنقید کی۔
اتوار کو براہ راست نشر ہونے والے سی بی ایس کے "فیس دی نیشن” پروگرام کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے مارگریٹ برینن کو بتایا کہ میری امریکی حکومت کو چھوڑنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ بات چیت حقائق اور ہمارے انتخاب پر مبنی نہیں تھی،موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ پر بالواسطہ تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے طالبان کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا جسے دوحہ معاہدہ کہا جاتا ہے ، حالات اور تاریخ پر نہیں بلکہ وقت پر مبنی تھا۔
واضح رہے کہ جو بائیڈن نے پہلے کہا تھا کہ انہیں وراثت میں ایک معاہدہ ملا ہے جس کی وجہ سے وہ معین وقت پر افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے یا انہیں افغانستان میں مزید فوج بھیجنے کے افسوسناک آپشن کا سامنا کرنا پڑاجبکہ بائیڈن کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے طالبان کو بہت سی رعایتیں دی ہیں اور اس کے بدلے بہت کم وصول کیا ہے۔
خلیل زاد نے ان الزامات کی تردید کی کہ انہیں طالبان رہنماؤں نے گمراہ کیا جبکہ یہ گروپ افغانستان میں پیش قدمی کر رہا تھا، انہوں نے کہا کہ میں فوج ، انٹیلی جنس سروسز اور امریکی حکومت کے ساتھ تھا،تاہم تینوں امریکی انتظامیہ نے یکے بعد دیگرے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ امریکہ نے افغانستان کی جنگ نہیں جیتی۔