?️
سچ خبریں:شرمالشیخ میں طے پانے والا جنگ بندی معاہدہ، دراصل حماس کی سفارتی فتح اور اسرائیل کی دو سالہ ناکامی کا اعتراف ہے۔
اگر اسرائیل اس پر قائم رہتا ہے، تو یہ مزاحمت کی تاریخی کامیابی ہوگی؛ اور اگر معاہدہ ٹوٹتا ہے، تو عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہوگا۔
شرمالشیخ میں طے پانے والا جنگ بندی کا معاہدہ دراصل دو سالہ جنگ کے بعد ایک تاریخی موڑ ہے — ایک ایسا موڑ جس نے فلسطینی مزاحمت کو سفارتی و سیاسی سطح پر غالب فریق کے طور پر تسلیم کروا دیا۔
یہ بھی پڑھیں:کیا غزہ جنگ کے دو سال بعد امن منصوبہ کامیاب ہو پائے گا؟
اگر صہیونی قابض اس معاہدے کی شقوں پر قائم رہیں تو یہ فلسطینی مزاحمت کے لیے ایک عظیم تزویراتی کامیابی ہوگی؛ ایسی کامیابی جو قسام بریگیڈ کے افسانوی حوصلے اور غزہ کے عوام کی پایداری کے نتیجے میں حاصل ہوئی اور جس نے اسرائیل کو پہلی بار مزاحمت کی شرائط پر بیٹھنے پر مجبور کیا۔
معاہدۂ شرمالشیخ؛ مزاحمت کی عقلانیت اور اسرائیل کی کمزوری
حماس نے، ایران اور یمن کی طرح، ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ آتشبس منصوبے کو قبول کر کے دراصل ایک عقلمندانہ سیاسی تدبیر اپنائی۔
مزاحمت کا ہدف صرف جنگ نہیں بلکہ اسٹریٹجک پیغامرسانی ہے—
چاہے وہ ایران میں ہو، فلسطین، یمن یا لبنان میں—
مزاحمتی محاذ ہر ممکن موقع سے اپنے بڑے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے فائدہ اٹھاتا ہے۔
اس وقت مزاحمت کا اصل ہدف واضح ہے:
غزہ کے قتلِ عام کا خاتمہ، 7 اکتوبر کی تاریخی فتح کا تثبیت،
اور اسرائیل کے اُن تمام منصوبوں کو ناکام بنانا جو فلسطینیوں کی جبری ہجرت، غزہ پر دوبارہ قبضے، یا مزاحمت کے خلعِ سلاح پر مبنی ہیں۔
امریکہ و اسرائیل کا دوہرا بحران
بظاہر یہ جنگ بندی دو بحرانوں سے فرار کی کوشش ہے:
پہلا، ڈونلڈ ٹرمپ کا نوبل انعام کے لیے امن کا نمائشی کارنامہ دکھانے کا دباؤ،
اور دوسرا، اسرائیل کا غزہ کے دلدل سے نکلنے کی کوشش۔
لیکن اگر اسرائیل واقعی معاہدے پر قائم رہتا ہے،
تو یہ غزہ کی عوام کے لیے تاریخی فتح ہوگی—
کیونکہ دو سالہ جنگ، 200 ہزار شہادتوں اور مکمل تباہی کے بعد بھی اسرائیل نہ کوئی میدانی، عملی یا اسٹریٹجک کامیابی حاصل کر سکا۔
غزہ کی گلیوں میں عوامی جشن اور پرچموں کی بہار دراصل اسی حقیقت کا اعلان ہے:
شرائط اب مزاحمت طے کر رہی ہے، اسرائیل نہیں۔
اگر معاہدہ ٹوٹتا ہے، تب بھی مزاحمت جیتتی ہے
اگر ٹرمپ کی میڈیا مہم کے بعد اسرائیل دوبارہ کارشکنی کرے،
تو یہ بھی فلسطینی مزاحمت کے لیے تین نئی کامیابیاں لے کر آئے گا:
- اعتمادِ امت میں اضافہ:
غزہ اور امتِ اسلامیہ حماس کی ذمہداری و سیاسی بصیرت پر پہلے سے زیادہ یقین پیدا کرے گی۔ - آئندہ مذاکرات کا خاتمہ:
جب فریقِ صہیونی خود معاہدہ توڑے گا،
تو آئندہ کوئی مذاکراتی جواز باقی نہیں رہے گا،
اور مزاحمت کو مزید وسیع جنگی دائرہ قائم کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ - عالمی دباؤ کی شدت:
اسرائیل اور امریکہ کے خلاف نفرت و سیاسی دباؤ اپنی انتہا تک پہنچ جائے گا،
اور تل ابیب عالمی سطح پر مزید تنہائی کا شکار ہوگا۔
فلسطینی ایمان، اسرائیلی اسلحے سے بالاتر
آج کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ دنیا کے تمام اسلحے، ٹیکنالوجی اور فوجی طاقتیں بھی ایمان و ارادے کے سامنے شکست کھا جاتی ہیں، دو سال کی مکمل جنگ، 200 ہزار شہادتوں اور 730 دن کی خونریزی کے باوجود،اسرائیل صفر نتیجے کے ساتھ میزِ مذاکرات پر واپس آیا ہے۔
اس کے برعکس، حماس اب بھی اپنی اصولی شرائط پر قائم ہے اس نے تمام تحمیلی بندوں کو رد کر کے صرف اسیران کے تبادلے کو قبول کیا ہے۔
تاریخ کی روایت یہ ہے کہ کوئی بھی امن منصوبہ اگر فلسطینی حقوق کے تحفظ کے بغیر بنایا جائے تو انجامِ شکست سے نہیں بچ سکتا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ امن منصوبہ بھی اگر مزاحمت کی شرائط سے ہمآہنگ نہیں ہوگا تو وہی انجام پائے گا جو ابراہیم معاہدے یا اوسلو معاہدے کا ہوا کیونکہ یہ تمام منصوبے مسئلے کی جڑ کو نظرانداز کرتے ہیں: یعنی قبضہ، حقِ خود ارادیت کی نفی اور انسانی حقوق کی پامالی،جب تک فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی اور فطری حقوق واپس نہیں ملتے،تب تک کوئی بھی امن محض عارضی، مصنوعی اور ناکام ثابت ہوگا۔
اب واپسی ممکن نہیں جو آج اس معاہدے کو صلح کہہ رہے ہیں،انہیں یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ فلسطینی عوام اب واپسی کے مقام سے آگے نکل چکے ہیں۔
طوفانالاقصیٰ اور اسرائیلی جنون نے ان تمام نازک رشتوں کو ہمیشہ کے لیے توڑ دیا جو کسی وقت فلسطینی و صہیونی معاشرے کے درمیان موجود تھے۔
مزید پڑھیں:غزہ جنگ بندی نسل کشی کے خاتمے کی جانب ایک قدم ہونا چاہیے: ایمنسٹی انٹرنیشنل
اب نہ ہمزیستی ممکن ہے، نہ سیاسی مفاہمت۔غزہ کے دُکھ، تباہی اور نسلکشی نےفلسطینی قوم کی اجتماعی یادداشت پر ایسا زخم چھوڑا ہے
کہ وہ کسی مشترکہ مستقبل کا تصور بھی نہیں کر سکتی اور یہی سب سے بڑی شکست ہے نہ صرف اسرائیل کے لیے بلکہ اس عالمی نظام کے لیے جو آج تک ظلم کو امن کے لبادے میں چھپانے کی کوشش کرتا آیا ہے۔
مشہور خبریں۔
آرٹیکل 47 کے تحت صدر کے مواخذے پر غور کرنا چاہیے، رضا ربانی
?️ 21 فروری 2021اسلام آباد{سچ خبریں} سینیٹ میں اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے
فروری
یوکرین کے لئے ہتھیاروں کا استعمال محدود
?️ 22 جون 2024سچ خبریں: واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ نے یوکرین کو دیے گئے ہتھیاروں
جون
ایران پر دباؤ ڈالنے سے ایٹمی مسئلہ حل نہیں ہو گا: پکن
?️ 9 جون 2022سچ خبریں: ویانا میں بین الاقوامی اداروں میں چین کے مستقل
جون
بوگوٹا میں تاریخی فیصلہ؛ 11 ممالک نے صیہونی حکومت کے ساتھ ہتھیاروں کے سودوں پر پابندی عائد کر دی
?️ 17 جولائی 2025سچ خبریں: بگوٹا اجلاس میں شریک عالمی جنوب سے تعلق رکھنے والے
جولائی
مسئلہ فلسطین کا حقیقی حل کیا ہے؟
?️ 14 نومبر 2023سچ خبریں: غزہ کی پٹی کے لیے جنگ بندی کا مطالبہ ضروری
نومبر
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بنگلادیش کے یوم آزادی پر شیخ حسینہ کو مبارکباد
?️ 26 مارچ 2021اسلام آباد(سچ خبریں) پچاس سال قبل مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے
مارچ
امریکہ اور چین کے درمیان تنازع
?️ 1 اگست 2022سچ خبریں: حالیہ ہفتوں میں امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی
اگست
صنعا پر سعودی جارح اتحاد کا دوبارہ حملہ
?️ 23 مارچ 2022سچ خبریں: یمن کے بے گناہ عوام کے خلاف سعودی جارح اتحاد
مارچ