واشنگٹن (سچ خبریں) افغانستان میں ہفتے کے روز بدنام زمانہ تنظیم، داعش کی جانب سے ایک اسکول پر وحشیانہ حملے کے بعد دنیا بھر میں اس حیوانیت کی شدید مذمت کی جارہی ہے اور اب امریکا نے طالبان اور افغان حکومت سے اہم مطالبہ کرتے ہوئے کہ ہے کہ وہ داعش کے عسکریت پسندوں کو پہلے سے ہی کشیدہ صورتحال کو مزید خراب کرنے سے روکنے کے لیے جاری امن عمل میں سنجیدگی سے مشغول ہوں۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے واشنگٹن میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہم ابھی بھی اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ کون ذمہ دار ہے لیکن میں نشاندہی کروں گا کہ ماضی میں کابل میں اہل تشیع برادریوں پر بھی اسی طرح کے حملوں میں داعش ذمہ دار رہا ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان کے دارالحکومت میں ہفتے کے روز اسکول حملے میں کم از کم 80 افراد ہلاک ہوگئے جن میں زیادہ تر طالبات تھیں، اس حملے کی پوری دنیا نے شدید مذمت کی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر ولکان بوزکیر نے دھماکے کو گھناؤنا اور بزدلانہ حملہ قرار دیا جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس گھناؤنے جرم کے ذمہ داروں کو جوابدہ ہونا چاہیے۔
تاہم امریکا مذمت سے ایک قدم آگے بڑھایا اور طالبان کی شمولیت سے انکار میں دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے ان سے تقریباً نصف صدی سے جنگ میں ملوث ملک میں امن قائم کرنے کے لیے افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اپیل کی۔
نیڈ پرائس نے کہا کہ طالبان نے حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے اور ہم ان کے عید کی تعطیلات پر 3 روزہ جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم طالبان اور افغان رہنماؤں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ امن کے جاری عمل میں سنجیدگی سے مشغول ہوں تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ افغان عوام دہشت گردی اور تشدد سے پاک مستقبل کا لطف اٹھائیں۔
امریکی عہدیدار نے لڑکیوں کے اسکول میں معصوم افغان بچیوں کو نشانہ بنانے والے ذمہ داروں کی مذمت کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ زیادہ تر لڑکیاں نو عمر تھیں اور انہیں تعلیم اور روشن مستقبل کے حصول کی وجہ سے مارا گیا۔
واضح رہے کہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ان کی تنظیم اس حملے میں ملوث نہیں ہے اور انہوں نے ظالمانہ اور بلاجواز تشدد کی مذمت کی تھی۔
افغان صدر اشرف غنی نے طالبان پر اس کا الزام عائد کیا لیکن امریکی میڈیا نے نشاندہی کی کہ دھماکے اہل تشیع برادری کے علاقے میں ہوئے جسے گزشتہ برسوں کے دوران داعش کے عسکریت پسندوں کی جانب سے وحشیانہ حملوں کا سامنا رہا ہے۔