سچ خبریں:روسی شہر کازان میں حالیہ بریکس اجلاس میں چین، بھارت، ایران اور روس کے سربراہان نے امریکی ڈالر کو بائی پاس کرنے کے لیے ایک نئے ادائیگی نظام ’’پل بریکس‘‘ کے قیام کی تجویز پیش کی۔ یہ نظام، امریکی ڈالر کے عالمی مالیاتی حاکمیت کے متبادل کے طور پر ابھر رہا ہے جسے بریکس نے 2006 میں اپنے قیام سے ہی ترجیحی ہدف قرار دیا تھا۔
امریکی ڈالر کو کمزور کرنے کی وجوہات
بریکس کے رکن ممالک امریکی معیشت کی بین الاقوامی قوت کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ڈالر عالمی معیشت پر حاوی ہے جس میں دو تہائی عالمی ذخائر اور تجارتی سرگرمیاں شامل ہیں، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت عالمی ادارے ڈالر پر منحصر ہیں جس سے امریکہ کو اقتصادی اور سیاسی میدان میں عالمی برتری ملتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا برکس گروپ مغرب کی بالادستی کو توڑ پائیے گا ؟
ڈالر کی اجارہ داری کو چیلنج
عالمی مالیاتی نظام میں ڈالر کی مضبوط حیثیت نے امریکہ کو تجارتی، سیاسی اور اقتصادی مرکز بنایا ہے مگر بریکس کی بڑھتی کوششیں اس برتری کو کمزور کر رہی ہیں۔
بریکس کے اعداد و شمار کے مطابق، 2019 تک 44 فیصد عالمی کرنسی لین دین، 63 فیصد غیر ملکی قرض، 59 فیصد بین الاقوامی قرض ادائیگیوں اور 62 فیصد عالمی ذخائر ڈالر پر مبنی تھے۔
ڈالر کے متبادل کے لیے بریکس کے اقدامات
بریکس ممالک کو امریکہ پر انحصار کم کرنے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ یہ بلاک امریکی نظام کو کمزور کرتے ہوئے جنوبی ممالک کے مابین تعلقات کو فروغ دے رہا ہے، اس مقصد کے لیے بریکس نے پانچ کلیدی اقدامات اختیار کیے ہیں:
1. نیا ترقیاتی بینک: بریکس کے رکن ممالک یعنی برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ نے اس بینک کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک کے متبادل کے طور پر قائم کیا ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک کو ڈالر پر انحصار کم کیا جا سکے۔
2. مقامی کرنسیوں کا استعمال: بریکس ممالک نے ڈالر پر انحصار کم کرنے کے لیے علاقائی تجارت میں مقامی کرنسیوں کے استعمال کو فروغ دیا ہے۔
3. کرنسی سویپ معاہدے: بریکس ممالک نے تجارتی تعلقات کو بڑھانے اور ڈالر کے استعمال کو کم کرنے کے لیے کرنسی سویپ معاہدے قائم کیے ہیں۔ مثال کے طور پر، 2013 میں برازیل اور چین نے 30 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا جس کے ذریعے براہ راست برازیلین رئیل اور چینی یوآن میں تجارت ممکن ہوئی۔
4. ڈالر کے بجائے سونے سے تجارت: چین نے تیل کی خریداری کو یوآن کے ساتھ سونے سے منسلک کیا ہے، جبکہ روس بھی دیگر کرنسیوں کے بدلے تیل فروخت کر رہا ہے۔
چین، روس، جنوبی افریقہ اور برازیل سونے کے بڑے پیداواری ممالک ہیں، جس سے ان کے مالیاتی استحکام میں اضافہ ہوتا ہے۔
5. سوئفٹ کا متبادل نظام: بریکس ممالک نے سوئفٹ کے متبادل کے طور پر چین اور روس کے نظام CIPS اور SPFS کو مربوط کیا ہے، جس سے ڈالر پر انحصار کم کرنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
پیوٹن کا ’’پل بریکس‘‘ منصوبہ
امریکہ کی ایران، روس اور چین پر پابندیوں کے بعد بریکس ممالک کو زیادہ مؤثر متبادل نظام کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ حالیہ اجلاس میں روسی صدر پیوٹن نے کہا کہ ہم ڈالر کو مسترد نہیں کر رہے لیکن اگر ہمیں اس کا استعمال نہ کرنے دیا جائے تو ہمیں متبادل تلاش کرنا ہوگا۔
پیوٹن نے "پل بریکس” کا منصوبہ پیش کیا جو مرکزی بینکوں کے زیرِ نگرانی ڈیجیٹل کرنسیوں پر مبنی ہے اور لین دین کو چند سیکنڈز میں مکمل کر کے اخراجات کو تقریباً صفر تک لے آتا ہے۔
مزید پڑھیں: برکس کو ایک بین الاقوامی تنظیم میں تبدیل کرنےکا امکان
نتیجہ
بریکس نے اپنے قیام سے ہی امریکی اور مغربی مالیاتی نظام کے متبادل کی تیاری کو اپنی اولین ترجیح بنایا ہے، حالیہ برسوں میں ایران، روس اور چین کے خلاف امریکی پابندیوں کے بعد بریکس ممالک نے اپنے متبادل نظام کو مضبوط بنانے کے لیے اقدامات تیز کر دیے ہیں۔