سچ خبریں:یمن کے خلاف آٹھ سالہ جنگ میں سعودی عرب کے سیاسی اور فوجی مقاصد میں سے کوئی بھی حاصل نہیں ہوسکا۔
المسیرہ نیوز ویب سائٹ نے یمن پر سعودی اتحاد کی جارحیت کے نتائج کی خبر دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ میں سعودی عرب کے سیاسی اور فوجی مقاصد میں سے کوئی بھی حاصل نہیں ہوسکا ہے بلکہ الٹا سعودی شہروں کو آگ میں ڈوبنا پڑ رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یمن کے خلاف جنگ کا اعلان واشنگٹن اور وائٹ ہاؤس نے کیا تھا جہاں سعودی سفیر عادل الجبیر نے صحافیوں کو بتایا کہ یمن پر حملہ شروع ہو چکا ہے،ایک حملہ جو سعودی عرب نے امریکہ کی شرکت سے شروع کیا۔
سعودی میڈیا نے [امریکہ سے ہزاروں میل دور] سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ٹیلی فون پکڑے ہوئے ریاض ایئر آپریشن سینٹر سے بات کرنے کی تصاویر نشر کیں، جہاں سعودی وزیر دفاع کی حیثیت سے انہوں نے صنعاء پر پہلا فضائی حملہ کرنے والے پائلٹوں کو مبارکباد پیش کی جنہوں نے "عزم کا طوفان” نامی فوجی آپریشن کیا۔
سعودی میڈیا نے اس پر گانا گایا، یہاں تک کہ عرب اور مغربی میڈیا [خاص طور پر برطانیہ میں]، بشمول بی بی سی، نے جنگ کے آغاز میں یمنیوں کے ردعمل کو نظر انداز کیا جبکہ سعودی اور اماراتی حکمرانوں کا خیال تھا کہ وہ چند ہفتوں میں صنعا میں داخل ہو جائیں گے تاہم یمن کے حالات نے یہ ظاہر کیا کہ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ 21 ستمبر کے انقلابیوں کو ایک شکست خوردہ ملک ، ایک تھکی ہوئی اور بکھری ہوئی فوج ورثے میں ملی ہے جس کے پاس کوئی فعال فضائیہ نہیں ہے۔
اس کے پاس سرد جنگ کی باقیات میں سے صرف خستہ حال اور پرانے طیارے ہیں جو رات کو اڑ نہیں سکتے،جہاں تک فضائی دفاعی ہتھیاروں کا تعلق ہے وہ زیادہ تر امریکی نگرانی میں اور سعودی اتحاد کے ساتھ وابستگی رکھنے والے اور اس کے وفادار سیکورٹی رہنماؤں کے تعاون میں استعمال کرتے ہیں، جیسے علی عبداللہ صالح؛ ایک غدار جس نے اپنے ملک پر حملے کی حمایت کی اور حملے کے تین سال سے بھی کم عرصے بعد، متحدہ عرب امارات کے تعاون سے بغاوت کی، اس طرح اتحادی جارحوں کے لیے صنعاء تک پہنچنے کا راستہ کھولنے کی کوشش کی تاہم بغاوت ناکام ہوئی اور اسے اپنے برے اعمال کے نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔