سچ خبریں: اگرچہ امریکہ اور انگلستان کے یمن پر حملے کو زیادہ تر انتباہی حملہ سمجھا جاتا ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مشرق وسطیٰ کے خطہ میں ایک بڑی بدامنی اور جنگ شروع ہونے کا امکان ہے۔
7 اکتوبر کو طوفان الاقصی آپریشن کا آغاز اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی کے خلاف اپنے فضائی آپریشن شروع کرنے کا سبب بنا،فضائی آپریشن غزہ کی پٹی میں جنگ کا پہلا مرحلہ تھا جو بیس دن تک جاری رہا۔
یہ بھی پڑھیں: مشرق وسطیٰ کے بحران کا ذمہ دار کون ہے؟
دوسرے مرحلے میں، جو غزہ جنگ کے تیسرے مہینے کے اختتام تک جاری رہا، اسرائیل نے زمینی کاروائیوں سے حماس کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔
آپریشن کے چوتھے مہینے کے آغاز کے ساتھ ہی تیسرا مرحلہ یعنی ٹارگٹڈ آپریشن شروع ہو گیا ہے لیکن غزہ کی پٹی میں جنگ کے ان تین مراحل نے علاقائی طاقتوں کی ترتیب اور ساخت میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔
یمن کی انصاراللہ تحریک جو طویل جدوجہد اور جنگوں کی ہنگامہ خیز تاریخ رکھتی ہے، اس تنازع میں داخل ہوئی،2004 سے 2010 تک انصاراللہ یمن کے سابق ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح کے ساتھ برسرپیکار رہی اور 2011 اور عرب انقلابات کے آغاز سے اقتدار میں آئی اور صنعاء کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد آخر کار سعودی اتحاد کے ساتھ 8 سالہ جنگ میں داخل ہوئی۔
انصاراللہ کو ان 8 سالوں میں شدید ترین فضائی، سمندری اور زمینی ناکہ بندیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن نہ صرف یہ کہ پیچھے نہیں ہٹی بلکہ سعودی اتحاد کی نظروں میں ایک جائز اداکار کے طور پر ابھری،غزہ کی صورتحال انصاراللہ تحریک کے لیے نہ صرف مزاحمت کے محور میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے بلکہ بین الاقوامی سرگرمی کے ساتھ ایک علاقائی اداکار کے طور پر ابھرنے کا اعلان کرنے کا ایک اور میدان ثابت ہوئی۔
انصاراللہ کے یمن میں اقتدار حاصل کرنے اور اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کی چار اہم وجوہات ہیں:
1۔ 2011 میں عرب انقلابات: ان انقلابات کو یمن میں علی عبداللہ صالح کے بعد انصار اللہ سمیت مختلف گروہوں کو فیصلہ کن اداکاروں کے طور پر ابھرنے کا موقع فراہم کیا۔
2. 2014 میں یمن پر سعودی عرب کا حملہ: یہ حملہ انصار اللہ کے ایک محدود گروپ سے ایک علاقائی اور باضابطہ اداکار کے طور پر ابھرنے کا باعث بنا۔
3. اکتوبر 2023 میں غزہ کی پٹی پر اسرائیل کا حملہ: اس حملے نے انصاراللہ کو ایک بااثر اداکار کے طور پر اٹھایا جو بین الاقوامی مساوات میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
4. 12 جنوری 2024 کو یمن پر امریکی اور برطانوی اتحاد کے حملے نے انصار اللہ کے ساتھ عربوں کی ایک قسم کی رفاقت پیدا کر دی اور اس تحریک کے وزن میں اور بھی اضافہ کر دیا یہاں تک کہ اس تحریک کے بعض مخالفین نے بھی انصار اللہ کے ساتھ ایک قسم کی صحبت اختیار کر لی۔
درحقیقت انصاراللہ ایک مقامی اداکار کے طور پر ابھری اور بعد میں علاقائی اداکار بن گئی،جس کی ایک مثال اسرائیلی بندرگاہوں کے لیے جانے والے بحری جہازوں پر اس تحریک کے حملے ہیں۔ 19 نومبر 2023 کو انصاراللہ نے بحیرہ احمر میں Galaxy Leader جہاز پر قبضہ کر کے عملی طور پر غزہ کی جنگ میں حصہ لیا اور اب تک اسرائیل سے وابستہ بحری جہازوں پر 30 سے زیادہ حملے کر چکے ہیں،انصار اللہ اسرائیل کے لیے بحیرہ احمر کی اہمیت سے بخوبی واقف ہے اور اسی وجہ سے اس نے اس محاذ کو فعال کرکے غزہ کی پٹی پر دباؤ میں اضافے کو روکنے کی کوشش کی ہے۔
بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق یمنی حملوں کے بعد اسرائیل کی ایلات بندرگاہ ایک طرح سے بند ہو چکی ہے اور اس مسئلے کی وجہ سے تل ابیب کی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے، اس کے علاوہ بحیرہ احمر پر دنیا کی تیل کی برآمدات کا 12% انحصار ہونے کی وجہ سے ان حملوں کی وجہ سے عالمی معیشت بھی دباؤ کا شکار ہے،آخر کار، امریکہ نے برطانیہ کے ساتھ مل کر 12 جنوری کو یمن پر حملہ کر دیا تاکہ جہاز رانی کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے لیکن امریکہ ایک بات بھول رہا ہے کہ ٹھیک 7 دہائیاں قبل اسی سمندر میں ایسا ہی ایک تجربہ ہوا تھا جسے اہل مغرب کی ناکامی سمجھا جاتا ہے۔
یمن پر امریکی اور برطانوی حملہ 1956 میں جمال عبدالناصر کے خلاف ناکام فرانسیسی-برطانوی اتحاد کی یاد دلاتا ہے،اس وقت جمال عبدالناصر کی طرف سے نہر سویز کو قومیانے کے بعد برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کے ساتھ مل کر مصر پر حملہ کیا،اس ملک کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے دعوے کے مطابق اس وقت امریکہ اس اتحاد کے خلاف تھا لیکن تقریباً 7 دہائیوں بعد اب خود وہی غلطی دہرا رہا ہے۔
امریکہ کو خدشہ تھا کہ مصر پر برطانوی اور فرانسیسی حملے سے ایک بڑا بین الاقوامی بحران شروع ہو جائے گا، خاص طور پر چونکہ سوویت یونین عبدالناصر کے حامیوں میں سے تھی ، اس لیے وہ اس حملے کی مخالفت کرتا تھا لیکن امریکہ نے اب وہی راستہ اختیار کیا ہے جس سے اس نے کبھی پیرس اور لندن کو منع کیا تھا۔
بڑے بین الاقوامی بحرانوں اور جنگوں کا آغاز بعض اوقات بہت چھوٹی اور بظاہر محدود کاروائی سے ہوتا ہے،بین الاقوامی میدان میں ضروری نہیں کہ اداکار عقلی طور پر برتاؤ کریں اور بعض اوقات ان کے اعمال کو عقلی نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ پہلی جنگ عظیم کے آغاز کی وجہ بوسنیا کے دارالحکومت سراجیوو میں ایک نوجوان بوسنیائی سرب کے ہاتھوں فرانز فرڈینینڈ (آسٹریا کے ولی عہد) اور ان کی اہلیہ (28 جون 1914 کو) کا قتل کا الزام تھا، ایک ایسی جنگ جس نے لاکھوں افراد کو نشانہ بنایا اور بین الاقوامی اداکاروں کی ساخت میں بنیادی تبدیلیاں کیں۔
مزید پڑھیں: مغرب نے مشرق وسطیٰ کو ایک بڑی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا
اگرچہ امریکہ اور انگلینڈ کی طرف سے یمن پر حملہ زیادہ تر انتباہی حملہ سمجھا جاتا ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مشرق وسطیٰ کے خطہ میں ایک بڑی بدامنی اور جنگ شروع ہونے کا امکان ہے اور مختلف عناصر کو کسی بھی کاروائی میں اس اہم نکتے کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔