سچ خبریں:سویڈن میں گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی تعداد گزشتہ ایک دہائی کے دوران بڑھتے ہوئے رجحان کے ساتھ ہر سال 25 سے 30 کے درمیان ہے لیکن مغربی مشہور شخصیات اور خواتین کے حقوق کے دفاع کا دعویٰ کرنے والا میڈیا اس بارے میں خاموش ہیں۔
برسوں پہلے تک سویڈن میں خواتین کے خلاف تشدد تقریباً ایک خفیہ موضوع تھا اس حد تک کہ اس خوشحال اسکینڈینیوین ملک کو صنفی مساوات کے حوالے سے سرفہرست سمجھا جاتا تھا، لیکن خبریں اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حقیقت کچھ اور ہے اور یہاں خواتین پر تشدد جاری ہے،اس حد تک کہ سویڈن میں ہر تین ہفتے میں ایک عورت اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل کر دی جاتی ہے بہت سی مثالیں ہیں جو اس سانحے کی گہرائی کو واضح کرتی ہیں۔
یہ بھی:سویڈن میں اسلام فوبیا بڑھتا ہوا
حال ہی میں ایک سویڈش شخص پر الزام ہے کہ اس نے اپنی ایرانی بیوی کو قتل کر کے اس کی لاش کو ایرانی قالین میں لپیٹ کر سمندری تہہ میں چھپا دیا ، اس پر مقدمہ چلایا گیا اور اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اس ایرانی خاتون کے خلاف یہ جرم اس وقت ہوا جب خواتین کے حقوق کے دفاع کا دعویٰ کرنے والا میڈیا اس بات پر خاموش رہا کیوں کہ اس جرم کا مرتکب مغربی ہے،معاملہ یہ تھا کہ گزشتہ سال اپریل میں سمیہ نامی ایرانی خاتون کے اہل خانہ نے سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم کی پولیس کو اطلاع دی کہ ان کی 40 سالہ بیٹی لاپتہ ہے،ان کے خاندان کے ایک فرد نے بتایا کہ ہماری بیٹی سمیہ جسے ہم "ساشا” کہتے ہیں، کئی سالوں سے اسٹاک ہوم میں مقیم ہے۔ اس دوران اس کی ملاقات ایک سویڈش شخص سے ہوئی جس کا نام ایرک وانہاتالو تھا جو اس سے پانچ سال بڑا تھا اور ان کی شادی ہوگئی،ان کا ایک چھوٹا بیٹا بھی ہے، اس کے شوہر ایرک کو بالآخر قتل کے شبہ میں گرفتار کر لیا گیا اور دوران تفتیش اس نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنی اہلیہ سمیہ کے بارے میں نہیں جانتا لیکن سات ماہ بعد اس نے خاموشی کا قفل توڑا اور گزشتہ سال اکتوبر میں قتل کا اعتراف کر لیا، جرم کی تفصیل بتاتے ہوئے اس نے کہا کہ سمیہ کے ساتھ جھگڑے کے بعد میں نے اسے مارا اور پھر اس کے گلے پر ہاتھ رکھ کر اس کا گلا گھونٹ دیا، اس دوران ہمارا بیٹا بھی گھر پر تھا اور اس نے یہ واقعہ دیکھا،جب میں نے دیکھا کہ وہ سانس نہیں لے رہی ہے تو میں نے اس کی لاش کو گھر سے باہر لے جانے کا فیصلہ کیا،میں نے لاش کو ایرانی قالین میں لپیٹ دیا جو اس کے والد نے ہمیں بطور تحفہ تھی پھر میں نے اسے گاڑی میں ڈالا اور اپنے بچے کے ساتھ سالٹ ویکن بے کی طرف چل پڑا، میں نے لاش کو پانی کی تہہ میں اس جگہ پھیک دیا جس کا میں نے پہلے سے منصوبہ بنایا تھا اور گھر واپس آ گیا، اگلی صبح پولیس کو اطلاع دی کہ میری بیوی گھر سے نکلی اور واپس نہیں آئی، ملزم کے اعترافی بیان کے بعد پولیس اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچے اور لاش کو پانی کی 23 میٹر گہرائی سے باہر نکالا۔ فرانزک میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا کہ سمیہ کی موت گردن پر دباؤ کے باعث ہوئی، یاد رہے کہ سمیہ سویڈن میں قتل اور قتل عام کی صرف ایک مثال ہے اور ہر سال درجنوں خواتین اور یہاں تک کہ مرد اس خوشحال اسکینڈینیوین ملک میں خاندانی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں، جس کا ہم ذیل میں شماریاتی جائزہ لیں گے۔
سویڈن میں مہلک تشدد اور خواتین کے قتل پر ایک شماریاتی نظر
نیشنل کرائم پریوینشن کونسل (Brå) کے اعدادوشمار نے حال ہی میں ظاہر کیا ہے کہ 2017 اور 2018 کے درمیان سویڈن میں کسی پارٹنر یا سابق پارٹنر کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہے،مجموعی طور پر 26 میں سے تقریباً ایک چوتھائی کیسز پارٹنر یا سابق پارٹنر کے ہاتھوں انجام پائے تھے جبکہ ماری جانے والی زیادہ تر خواتین تھیں،لہذا ان تمام قسم کے قتلوں میں سے تقریباً 67% خواتین تھیں (22 خواتین ہر سال) جبکہ صرف پانچ فیصد مرد مہلک تشدد کا شکار ہوئے تھے ان پر کسی ساتھی یا سابق ساتھی نے حملہ کیا نیز 2017-2012 کے عرصے میں مہلک تشدد کی وجہ سے ہر سال اوسطاً 25 خواتین ہلاک ہوئیں، 1990 اور 1995 کے درمیان، ہر سال اوسطاً 17 خواتین موجودہ یا سابقہ ساتھی کے ہاتھوں موت کا شکار ہوئیں جبکہ یہ تعداد 2015-2010 میں ہر سال 14 خواتین تھی۔
یہ بھی:برطانوی خواتین کے لیے فٹ بال ورلڈ کپ کے نتائج، مار پیٹ اور جنسی تشدد
شماریاتی ویب سائٹ "Statista” نے سویڈن میں 2011 سے 2021 تک قتل کی تعداد کو متاثرہ کی جنس کی بنیاد پر درج ذیل گراف کے ساتھ الگ کیا ہے۔ 16 جون 2022 کو شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق سویڈن میں خواتین سے زیادہ مرد قتل کا نشانہ بنتے ہیں، 2012 سے 2015 تک پرتشدد جرائم میں مارے جانے والے مردوں کی تعداد میں اضافہ ہوا دریں اثنا، پچھلی دہائی میں قتل کا شکار ہونے والی خواتین کی تعداد عام طور پر 25 اور 30 کے درمیان رہی ہے، 2021 میں، سویڈن میں 89 مرد اور 24 خواتین کے قتل کا شکار ہونے کی تصدیق ہوئی جبکہ دیگر یورپی ممالک کے مقابلے سویڈن میں قتل کی شرح تقریباً اوسط تھی، یاد رہے کہ سویڈن میں خواتین نہ صرف گھریلو اور اجتماعی تشدد کا شکار ہیں بلکہ ان کے ساتھ ملازمت سے تنخواہ تک سماجی اور معاشی مواقع میں بھی امتیازی سلوک کیا جاتا ہے
سویڈش خواتین کے ساتھ ملازمت سے لے کر تنخواہ تک امتیازی سلوک
یورپی یونین کی شماریاتی ویب سائٹ کے طور پر "یوروسٹیٹ” ویب سائٹ کے شائع کردہ نتائج کے مطابق 2021 میں سویڈش خواتین کی غربت کی شرح 16.30 تھی، سویڈن میں پوائنٹس پر مبنی پنشن سسٹم متعارف ہونے کے تقریباً 20 سال بعد، پنشن کی ادائیگیوں میں نمایاں فرق ہو جاتا ہے، خواتین کو مردوں کے مقابلے اوسطاً 30% کم ملتا ہے۔ 2021 میں، سویڈن میں خواتین کارکنوں نے ماہانہ اوسطاً 26400 SEK کمائے، جبکہ اسی زمرے میں مردوں کی اوسط تنخواہ SEK 30000 ماہانہ تھی،سرکاری ملازمین کے لیے یہ فرق اور بھی زیادہ تھا یہاں مردوں کو 47600 کرونر ماہانہ ادا کیا جاتا تھا جب کہ خواتین کے لیے یہ تعداد 40000 کرونر سے کچھ زیادہ تھی۔
خلاصہ
براعظم یورپ میں خواتین کا قتل تقریباً ایک کروڑ کی آبادی والے سویڈن کے لیے کوئی انوکھی بات نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یورپ میں ہر 7 میں سے 1 عورت اپنے شوہروں، بوائے فرینڈز یا سابق شوہروں کے گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہے اور ان میں سے کچھ واقعات میں رشتہ داروں کے ہاتھوں اپنی جان بھی گنوا بیٹھتی ہے،اب یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ اس سانحے کی گہرائی کو دیکھتے ہوئے سویڈن کی مشہور شخصیات اور یورپی میڈیا اس معاملے پر خاموش کیوں ہیں؟ انہوں نے سویڈش پارلیمنٹ میں ایرانی نسل کی دو خواتین کے معاملے کو اجاگر کیا تاکہ ایران کو مغرب کی جعلی جمہوریت کے خلاف خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے کے طور پر پیش کیا جا سکے جبکہ اسی ملک میں ہر سال درجنوں نوجوان خواتین کو قبرستانوں میں دفن کیا جاتا ہے۔