سچ خبریں: حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کل اپنی تقریر میں صہیونیوں کے اس خوف کو برقرار رکھا کہ شمالی محاذ میں جنگ بھڑک اٹھے گی۔
سید حسن نصر اللہ کی کل کی تقریرکا پانچ جہتوں میں تجزیہ کیا جا سکتا ہے، جو یہ ہیں: الاقصیٰ طوفان آپریشن کی نوعیت، صیہونی حکومت کا طرز عمل، امریکہ اور یورپی ممالک کا طرز عمل، عرب ممالک کا طرز عمل اور شمالی محاذ کی صورتحال
1۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کی نوعیت
طوفان الاقصیٰ اور غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی جرائم کو 4 ہفتے گزر چکے ہیں ،ایسے جرائم جن میں اب تک تقریباً 9300 شہید اور تقریباً 24000 فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں،اس آپریشن کے بعد پہلے دنوں میں صیہونی حکومت نے القسام کے مجاہدین کے اقدام اور اپنی شکست کے وزن کو کم کرنے کی کوشش کی،اس بنا پر صیہونی حکومت نے دعویٰ کیا کہ طوفان الاقصی آپریشن اسلامی جمہوریہ ایران کے اشاروں اور تعاون سے انجام دیا گیا ہے،تاہم آیت اللہ خامنہ ای نے اس آپریشن کے صرف تین دن بعد ہی اس دعوے پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا کہ یہ آپریشن فلسطینی نوجوانوں نے انجام دیا جبکہ بعد میں امریکیوں نے بھی اعتراف کیا کہ ایران کو اس کارروائی کا علم نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیں: خطہ کی موجودہ صورتحال کے بارے میں سید حسن نصراللہ کا اہم ترین جملہ
لہٰذا طوفان الاقصیٰ کو ہلکا قرار دینے میں صیہونی حکومت کے حربے ناکام ہو گئے،اب سید حسن نصراللہ نے بھی طوفان الاقصیٰ کو مکمل طور پر فلسطینی نوجوان کا کارنامہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی محور کے اراکین میں سے کوئی بھی اس آپریشن کے بارے میں نہیں جانتا تھا،عظیم طوفان الاقصیٰ آپریشن کا فیصلہ، اس کا منصوبہ اور عمل درآمد سب کچھ 100 فیصد فلسطینیوں کا تھا، انہوں نے اس منصوبے کو ہر کسی سے چھپایا حتیٰ کہ غزہ میں مقیم مزاحمتی گروپوں سے بھی، حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کا یہ تبصرہ فلسطینی مجاہدین کے ہاتھوں صیہونی حکومت کی ذلت کو ایک بار پھر یاد دلانے اور اس پر زور دینے کے مقصد سے کیا گیا ہے۔
2. صیہونی حکومت کا طرز عمل
سید حسن نصر اللہ کی تقریر کا دوسرا رخ صیہونی حکومت کے طرز عمل کا تجزیہ تھا،طوفان الاقصیٰ آپریشن میں اپنی 75 سالہ تاریخ کے سب سے بڑے تعجب سے دوچار ہونے والی صیہونی حکومت نے غزہ کے عوام کے خلاف اپنے مظالم اور جرائم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے،درحقیقت غزہ کے معصوم اور مظلوم عوام کا قتل ہی وہ حکمت عملی ہے جسے اس حکومت نے طوفان الاقصیٰ کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔
القدس کی قابض حکومت غزہ کے عوام کو قتل کرکے مزاحمت کی حمایت بند کرنے پر مجبور کرنا چاہتی تھی تاکہ وہ حماس کو تباہ کر سکے لیکن ایک طرف غزہ کے عوام حماس کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں اور دوسری طرف صیہونی حکومت حماس کو تباہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے، ایک ایسا مسئلہ جس کا ذکر امریکن کونسل آن فارن ریلیشنز کے سربراہ رچرڈ ہاس نے بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ حماس ایک تحریک اور فکر ہے جو ختم نہیں ہوگی،سید حسن نصر اللہ کے مطابق حماس کو تباہ کرنے سمیت اپنے ابتدائی اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہونے والی صیہونی حکومت اب فلسطینیوں کا قتل عم کر کے حماس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے لیکن اس مجرمانہ حکومت کا یہ ہدف بھی ناقابل حصول ہوگا۔
3. امریکہ اور یورپی ممالک کا طرز عمل
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کے خطاب کا ایک اور پہلو یہ تھا کہ صیہونی حکومت نے گزشتہ 75 سال اور آخری مہینے میں فلسطینیوں کے خلاف جو کچھ کیا وہ امریکہ اور بعض یورپی ممالک کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے،حقیقت یہ ہے کہ مغربی ایشیائی خطے میں صیہونی حکومت کا وجود مغربی طاقتوں کی پالیسی کا نتیجہ ہے،برطانیہ نے صیہونی حکومت کے قیام کے فوی طور پر اعلان کیا یا سید حسن نصر اللہ کے الفاظ میں مغربی ایشیائی خطے پر صیہونی حکومت کو مسلط کرنے کی بنیاد فراہم کی۔
اس جعلی اور مسلط کردہ حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے گزشتہ 75 سالوں میں غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف اس کے ہر طرح کے جرائم کی حمایت کی ہے اور یہ حمایت آج بھی غزہ جنگ کے انتظام اور جنگ بندی کی مخالفت کی صورت میں جاری ہے،اس سلسلے میں سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ غزہ کی موجودہ جنگ کا مکمل طور پر ذمہ دار امریکہ ہے، اسرائیل ایک آلہ کار ہے جبکہ امریکہ جارحیت کو رکنے کی اجازت نہیں دیتا اور جنگ بندی کو مسترد کرتا ہے جس کے معلوم ہوتا ہے کہ غزہ کی جنگ کا انتظام امریکہ ہی کرتا ہے، دوسری طرف صیہونی غاصب حکومت امریکہ اور یورپی ممالک کی مدد اور حمایت سے طوفان الاقصیٰ میں ہونے والی اپنی شکست کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس آپریشن نے صیہونی حکومت کی کمزوری کو ظاہر کر دیا اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ واقعی مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہیں۔
امریکی حکومت اور اس کے صدر، وزراء اور جرنیل سب اس حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے دوڑ پڑے ، اس لیے کہ تھر تھر کانپ رہی تھی اور اس میں زلزلہ آچکا تھا، تاکہ اس کے کچھ ہوش بحال ہوں اور اسے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کیا جا سکے لیکن اب تک ایسا ہو نہیں سکا، اسرائیل کو گلے لگانے میں امریکہ کی جلد بازی اس حکومت کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔
4. عرب ممالک کا طرز عمل
سید حسن نصر اللہ کی تقریر کا دوسرا رخ عرب ممالک پر تنقید تھا،صیہونی حکومت غزہ کے عوام کا قتل عام اور نسل کشی کر رہی ہے،شہید ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین اور عام شہری ہیں،سید حسن نصر اللہ کے بقول اسرائیل نے دیوانہ وار کرتے ہوئے نہایت بےشرمی کے ساتھ محلوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے،تاہم عرب ممالک نے غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا اور صرف زبانی طور پر اس حکومت کے جرائم کی مذمت کی،حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کے نزدیک عرب ممالک کے ردعمل سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس معاملے ایک طرح کی علیحدگی اختیار کر لی ہے۔
انہوں نے جہاں امریکہ اور صیہونی حکومت کے ٹھکانوں پر حملے میں عراق اور یمن کی مزاحمتی کاروائیوں کی حمایت اور تعریف کی وہیں عرب ممالک کی بے عملی پر تنقید کی، درحقیقت سید حسن نصر اللہ نے انہیں وہ اقدامات بھی یاد دلائے ہیں جو عرب ممالک اٹھا سکتے ہیں اور کہا کہ آپ کو غزہ کے خلاف جارحیت کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے، مذمت کافی نہیں، تعلقات منقطع کریں اور اپنے سفیروں کو واپس بلا لیں،اسرائیل کو برآمد کرنا بند کریں، کیا آپ میں رفح کراسنگ کھولنے کی طاقت نہیں ہے؟
5۔ شمالی محاذ کی صورتحال کا تجزیہ
سید حسن نصر اللہ کی تقریر کا پانچواں پہلو شمالی محاذ کی صورتحال کا تجزیہ تھا،غزہ کی پٹی کے خلاف قدس کی غاصب حکومت کے حملوں کے آغاز سے ہی یہ حکومت شمالی محاذ پر حزب اللہ کے ردعمل سے پریشان تھی، 2006 میں 33 روزہ جنگ کے بعد صیہونی حکومت نے لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ جنگ نہ کرنے کی کوشش کی، گذشتہ 24 گھنٹوں میں سید حسن نصراللہ کی تقریر اور ردعمل کے خوف سے صہیونی فوج لبنان کی سرحد پر پوری طرح چوکس رہی،خیال یہ تھا کہ ان کی تقریر کے بعد شمالی محاذ پر جنگ مزید شدید ہو جائے گی لیکن انہوں نے اپنی تقریر میں کئی اہم نکات کی طرف اشارہ کیا۔
سب سے پہلے لبنانی مزاحمتی تحریک نے گذشتہ 4 ہفتوں میں صیہونیوں کے ساتھ جنگ میں فلسطینی مزاحمت کاروں کی مدد کی ہے اور یہ مدد جاری رہے گی، سید حسن نصراللہ نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ لبنانی مزاحمت ایک حقیقی جنگ میں داخل ہو چکی ہے جسے صرف سرحدی علاقوں میں موجود لوگ ہی سمجھتے ہیں،دوسرے لفظوں میں سید حسن نصر اللہ صیہونی حکومت کے خلاف اعلان جنگ سے نہ صرف ڈرتے نہیں بلکہ انہوں باضابطہ اس کا اعلان بھی کیا، دوم؛ اگرچہ شمالی محاذ سے حزب اللہ کے حملے وسیع نہیں تھے اور حزب اللہ کی حقیقی طاقت وہاں نہیں تھی، لیکن اس کی وجہ سے صیہونی حکومت نے جنوبی محاذ سے اپنی افواج کا ایک بڑا حصہ کم کر دیا اور حزب اللہ کے خطرات سے نمٹنے کے لیے انہیں شمالی محاذ میں تعینات کیا
سید حسن نصر اللہ نے اس حوالے سے کہا کہ لبنانی محاذ نے غزہ پر حملہ کرنے کے لیے استعمال ہونے والی افواج کے ایک بڑے حصے کو کم کر دیا ،صیہونی فضائیہ کا ایک چوتھائی حصہ شمالی سرحدوں پر بھیج دیا گیا ہے اور تقریباً نصف دفاعی فورس بھی لبنان کی سمت میں تعینات ہے،اگر ہمارا موقف صرف یکجہتی اور دکھاوا ہوتا تو اسرائیل شمالی سرحدوں سے پرسکون ہو کر اپنی فوجیں غزہ بھیج دیتا، سوم، انہوں نے صہیونیوں کے دلوں میں شمالی محاذ کے خوف کو بھی برقرار رکھا اور اس نکتے پر زور دیا کہ جنگ کے پھیلنے کا ابھی بھی امکان ہے، انہوں نے اس سلسلے میں کہا کہ دشمن کو خدشہ ہے کہ یہ محاذ (شمالی محاذ کا حوالہ دیتے ہوئے) اپنی کارروائیاں تیز کر دے گا اور بڑے پیمانے پر جنگ چھڑ جائے گی،اس کا قوی امکان ہے اور یہ ہو سکتا ہے۔
نتیجہ
سید حسن نصر اللہ کی تقریر جنگ کے پھیلنے کا سبب نہیں بنی لیکن انہوں نے اس کے امکان کو بھی رد نہیں کیا،حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل اب بھی صیہونیوں اور ان کے حامیوں کو جنگ کی توسیع کے نتائج سے خبردار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،دریں اثناء سید حسن نصر اللہ نے آیت اللہ خامنہ ای کی طرح باضابطہ طور پر تاکید کی کہ صیہونی حکومت مغرب بالخصوص امریکہ کی ہمہ گیر حمایت کے سائے میں غزہ کے عوام کے خلاف اپنے جرائم کو جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ کہ واشنگٹن اور یورپی ممالک غزہ کے عوام کے خلاف گھناؤنے جرم میں شریک ہیں۔
مزید پڑھیں: صیہونی حکام سید حسن نصراللہ کی تقریریں اتنے غور سے کیوں سنتے ہیں؟
اگر یہ حمایت نہ ہوتی تو فلسطینی مزاحمت اس حکومت کو جو مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے، کو بھاری ضربیں لگ سکتی تھی۔ کم از کم اپنے عرب تشخص کے لیے عرب ممالک کو چاہیے کہ وہ صیہونی حکومت کے خلاف سنجیدہ اقدامات کریں اور تعلقات کو معمول پر لانے کی فکر نہ کریں کیونکہ اس عمل سے ان کے مفادات محفوظ نہیں ہوں گے۔