(سچ خبریں) آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، سنہ 1992 سے 2021 تک دنیا بھر میں 14سو سے صحافی پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں، ورلڈ پریس فریڈم ڈے کا آغاز سنہ 1993 میں ہوا تھا جب اس دن کی باقاعدہ منظوری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دی تھی۔
یہ دن منانے کا مقصد پیشہ وارانہ فرائض کی بجا آوری کے دوران صحافیوں اور صحافتی اداروں کو درپیش مشکلات، مسائل، دھمکی آمیز رویوں اور زندگیوں کو درپیش خطرات کے متعلق قوم اور دنیا کو آگاہ کرنا ہے۔
3 مئی دنیا بھر میں آزادی صحافت کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد عالمی سطح پرصحافتی آزادی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات کا حصول بھی ہے جس میں آزادی صحافت میں پیش آنے والی مشکلات اور رکاوٹوں کا سدباب بھی کیا جا سکے۔
اس دن کو منانے کا آغاز 1991ء میں نیمبیا سے ہوا جبکہ اقوام متحدہ نے 3 مئی 1993ء کو باقاعدہ طور پر آزادی صحافت کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا اس دن تمام دنیا کی صحافتی برادری اس بات کا تجدید عہد کرتی ہے کہ کسی بھی پرتشدد عناصر یا ریاستی دباؤ کے بغیر آزاد سچی اور ذمہ دارانہ اطلاعات عوام تک پہنچنے کیلئے لڑتے رہیں گے۔
اس دن تمام صحافی اپنے پیشہ وارانہ فرائض کو پوری ایمانداری اور حق گوئی و بے باکی کے ساتھ جاری رکھنے کا عزم دہراتے ہیں صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس صحافیوں کے قتل میں سب سے زیادہ متاثر شام رہا اس کے بعد میکسیکو پھر افغانستان اور عراق کا نمبر آتا ہے۔
دنیا بھر میں آزادی صحافت کیلئے صحافیوں کی قربانیاں لازوال ہیں، پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی صحافی ایک طویل عرصے سے اپنی آزادی کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں ان کی قربانیوں کی ایک ناقابل فراموش تاریخ ہے، آمریت کے دور میں صحافیوں کو بے پناہ اذیت و تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان پر کوڑے تک برسائے گئے، نام نہاد سول حکمرانوں کے دور میں اخبار اور چینلز کو مالی مشکلات سے دوچار کیا گیا، ان کے اشتہارات بند کر دئیے گئے اور انکی ادائیگیوں کو روک لیا گیا، ان میں تاخیری حربے استعمال کئے گئے۔
آج اگر دنیا پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آزادی صحافت یا آزادی اظہار کی ایک تعریف پر دنیا متفق نہیں ہے، صحافی اور آزادئ اظہار کے حامی اس کی کوئی تعریف کرتے ہیں۔
میڈیا ہاؤسز کے مالکان اپنے تجارتی مفادات کے تحت اس کی کوئی اور تعریف کرتے ہیں اور حکومتیں اپنے مقاصد کے لئے، خاص طور سے قومی سلامتی کے نام پر اس کی کوئی اور توضیح کرتی ہیں۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق سنہ 1992 سے 2021 تک 1402 صحافی جاں بحق ہوچکے ہیں، اپنے فرائض کی انجام دہی کی پاداش میں زنداں میں قید کیے جانے والے صحافیوں کی تعداد بھی کم نہیں، گزشتہ برس مختلف ممالک میں 274 صحافیوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔
کمیٹی کے مطابق اس پیشے میں متاثر ہونے والے صحافیوں کی 75 فیصد تعداد وہ ہے جو جنگوں کے دوران اور جنگ زدہ علاقوں میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں، صحافیوں کی 38 فیصد تعداد سیاسی مسائل کی کھوج (رپورٹنگ) کے دوران مختلف مسائل بشمول دھمکیوں، ہراسمنٹ اور حملوں کا سامنا کرتی ہے۔
پاکستان میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون تسلیم کیا جاتا ہے اس کے باوجود ماضی میں اہل صحافت نے پابندیوں کے کالے قوانین اور اسیری کے مختلف ادوار دیکھے ہیں، صحافت کی موجودہ آزادی کسی کی دی ہوئی نہیں بلکہ یہ صحافیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے جنہوں نے عقوبت خانوں میں تشدد سہا، کوڑے کھائے اور پابند سلاسل رہے۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق صحافت پر سب سے زیادہ قدغن عائد کرنے والے ممالک کی فہرست میں شمالی افریقی ملک اریٹیریا سرفہرست ہے، دیگر ممالک میں شمالی کوریا، ترکمانستان، ویت نام، ایران، بیلا روس اور کیوبا شامل ہیں۔