سچ خبریں: اگر عالمی فوجداری عدالت (ICC) کی جانب سے نیتن ہاہو اور گلینٹ کے خلاف حتمی گرفتاری کا حکم جاری ہوتا ہے تو 124 ممالک جو اس عدالت کو تسلیم کرتے ہیں، ان کی گرفتاری کے پابند ہوں گے۔
جیسے جیسے غزہ میں صہیونیستی حکومت کے جرائم اور نسل کشی بڑھتی جاری ہے، دنیا بھر میں اس حکومت کے خلاف دباؤ اور سیاسی تنہائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جس کی تازہ ترین مثال ICC کی حالیہ کاروائی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکہ نیتن یاہو پر ہیگ کی عدالت کے فیصلے کو کیوں نہیں مانتا؟
پیر کے روز ICC کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے بنیامین نتانیاهو اور یوآو گلینٹ کے خلاف گرفتاری کی درخواست جمع کروائی، جس میں ان پر فلسطینیوں کا قتل عام، بھوک کے ذریعے جنگ، غزہ میں انسانی امداد کی روک تھام اور جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ بنانے کا الزام ہے۔
دنیا بھر کے ممالک نے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے حکم کو انجام دینے کے لیے تیاری
اگرچہ امریکہ، برطانیہ، جمہوری چیک، اور آسٹریا جیسے کچھ ممالک نے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے، تاہم بہت سے دوسرے ممالک، بشمول کچھ یورپی اتحادی جو عموماً امریکہ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، نے نیتن یاہو کی گرفتاری پر مبنی عالمی عدالت کے حکم کا خیرمقدم کیا ہے۔
صیہونی چینل 12 کی ویب سائٹ ماکو نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر کے ممالک نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور اگر اس بین الاقوامی عدالت کے ججز نے نتانیاهو اور گلینٹ کے خلاف گرفتاری کا حکم جاری کیا تو وہ 124 ممالک میں سفر نہیں کر سکیں گے جس میں جرمنی، ہالینڈ، یونان، فرانس، جاپان، اسپین، اور فلسطینی ریاست جیسے ممالک۔ اس رپورٹ میں ہر 124 ممالک کا نام بھی شامل ہے جو کہ مختلف براعظموں سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس فیصلے کے بعد یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے چیف جوزف بورل نے بھی کہا ہے کہ اس یونین کے تمام رکن ممالک کو اس عدالت کے فیصلوں کی پیروی کرنی چاہئے۔
جرمنی، فرانس، بیلجیم، اور اسلووینیا نے بھی اپنے بیانات میں اس عدالتی فیصلے کی حمایت کی ہے، جرمن چانسلر اولاف شولٹز نے کہا کہ اگر ICC نتانیاهو کے خلاف گرفتاری کا حکم جاری کرتا ہے تو انہیں جرمنی میں قدم رکھتے ہی گرفتار کر لیا جائے گا۔
فرانسیسی وزارت خارجہ نے بھی کہا ہے کہ پیرس اس عدالت کی آزادی اور جنگی جرائم کے خلاف جدوجہد کی حمایت کرتا ہے، غزہ میں جرائم کے مرتکبین پر بغیر کسی استثنا کے، ان کے عہدے اور مقام کی پروا کیے بغیر مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔
بلجیم کی وزیر خارجہ حاجه لحبیب نے بھی اپنے سوشل میڈیا ایکس (سابق ٹویٹر) اکاؤنٹ پر لکھا کہ بروکسل بین الاقوامی فوجداری عدالت کی مکمل حمایت کرتا ہے، غزہ میں ہونے والے جرائم کو بغیر کسی استثناء کے اور جرائم کے مرتکب افراد کی حیثیت کو مدنظر رکھے بغیر اعلیٰ سطح پر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا چاہیے۔
اسی طرح، اسلووینی کی وزارت خارجہ نے بھی سوشل میڈیا ایکس کے اپنے اکاؤنٹ پر لکھا کہ ان افراد کے خلاف جنہوں نے 7 اکتوبر 2023 کو غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف بغیر کسی استثناء کے اور ان کے مقام اور حیثیت کے مدنظر رکھے بغیر، مستقل اور بے طرفانہ قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔
یہاں تک کہ کچھ ایسے ممالک جو صہیونی ریاست کے ساتھ سازگار تعلقات رکھتے ہیں، انہوں نے بھی بین الاقوامی فوجداری عدالت کی حکم عملی کی حمایت کا اعلان کیا ہے، مثال کے طور پر اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفادی نے اپنے سویڈش ہم منصب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ بین الاقوامی قوانین عملدرآمد کے لیے بنائے گئے ہیں اور بہت سے بین الاقوامی ادارے انصاف کے نفاذ کے لیے قائم کیے گئے ہیں تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے اور قوانین کو ہر کسی کے ساتھ یکساں طور پر نافذ کیا جانا چاہیے۔
بین الاقومی فوجداری عدالت نے اب تک کن رہنماؤں کی گرفتاری کا حکم دیا ہے؟
بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) نے اب تک دنیا بھر کے کئی اعلیٰ مقامات پر فائز متعدد افراد کے خلاف گرفتاری کے احکامات جاری کیے ہیں، ان میں سے چند اہم مقدمات کی تفصیل درج ذیل ہے:
1. عمر البشیر: 4 مارچ 2009 کو ICC نے سوڈان کے صدر عمر البشیر کے خلاف دارفور میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں غیر مستقیم شرکت کے الزام میں گرفتاری کا حکم جاری کیا۔
2۔ معمر قذافی: لیبیا کے سابق ڈکٹیٹر معمر قذافی کو 2011 میں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں مطلوب قرار دیا گیا لیکن وہ گرفتاری سے قبل ہلاک ہو گئے۔
3۔ سیف الاسلام قذافی: معمر قذافی کے بیٹے کو بھی 2011 میں لیبیا میں احتجاجوں کی کچلنے کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں گرفتاری کا حکم دیا گیا ۔
4۔ لوران باگبو: آئیوری کوسٹ کے سابق صدر لوران باگبو کو 2010 کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی خونریزی میں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں گرفتار کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔
5۔ جوزف کونی: یوگنڈا کی مزاحمتی فوج کے سربراہ کو 2012 میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں مطلوب قرار دیا گیا۔
6۔ توماس لوبانگا: کانگو کے ملیشیا رہنما کو 2012 میں جنگی جرائم میں کم عمر بچوں کو فوجی کاروائیوں میں استعمال کرنے کے جرم میں ملوث قرار دیا گیا۔
7۔ ژان-پییر بمبا : کانگو کے سابق نائب صدر کو 2026 میں سینٹرل افریقن ریپبلک میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں محکوم کیا گیا، لیکن 2018 میں اپیل کورٹ نے انہیں بری کر دیا۔
8۔ احمد الفقی المهدی: مالی میں سرگرم انتہاپسند گروپ انصار دین کے رکن احمد الفقی المهدی کو 2013 میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے پراسیکیوٹر نے مذہبی عمارتوں اور تاریخی مقامات کے خلاف جان بوجھ کر حملے کرنے کے الزام میں مورد الزام ٹھہرایا گیا۔
یہ پہلی مرتبہ تھا کہ ثقافتی ورثے اور مذہبی عمارات کو نقصان پہنچانے کے الزامات کو بین الاقوامی فوجداری عدالت میں اٹھایا گیا، المهدی کو بعد میں نیجر حکومت نے گرفتار کیا اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کے حوالے کر دیا گیا۔
9۔ بوسکو نتاگندا: کانگو کے ملٹری کمانڈر بوسکو نتاگندا کو 2019 میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں مورد الزام ٹھہرایا گیا، جس میں قتل، جنسی زیادتی اور بچوں کو فوجی سرگرمیوں میں استعمال کرنا شامل تھا، 2020 میں انہیں 30 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
10۔ ڈومینیک اونگوین: یوگنڈا کے خدا کی مزاحمتی فوج نامی گروہ کے ایک سینیئر کمانڈر ڈومینیک اونگوین پر 2021 میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کیے گئے اور 2022 میں انہیں 25 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
11۔ علی کوشیب: جن کا اصلی نام علی محمد علی عبد الرحمان ہے، انہوں نے 2020 میں خود کو بین الاقوامی فوجداری عدالت کے حوالے کیا، جب ان پر 2007 میں جاری کردہ گرفتاری وارنٹ کے تحت جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات تھے جو دارفور، سوڈان میں انجام پائے تھے۔
12۔ ولادیمیر پیوٹن: روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے خلاف بھی 2023 میں بین الاقوامی فوجداری عدالت نے یوکرین کے مقبوضہ علاقوں سے بچوں کی غیر قانونی منتقلی کا دعوی کرتے ہوئے جنگی جرائم کے الزام میں گرفتاری کا حکم جاری کیا اس لیے کہ ان کے اس عمل کو روس-یوکرین جنگ کے دوران جنگی جرم کے طور پر پیش کیا گیا۔
13۔ نیتن ہاہو اور گلینٹ: صیہونی وزیر اعظم اور وزیرجنگ کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کی جانب سے گرفتاری کا حکم گذشتہ ہفتے جاری کیا گیا، ان پر فلسطینیوں کے قتل عام، بھوک کو جنگ کے طور پر استعمال کرنے، غزہ کی پٹی میں انسانی امداد تک رسائی کی روک تھام، اور جن بوجھ غیر فوجی آبادی کو نشانہ بنانے کے الزامات عائد کیے گئے۔
یاد رہے کہ یہ پہلی بار ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے امریکہ کے ایک قریبی اتحادی ملک کے اعلیٰ سطحی عہدیداروں کے خلاف ایسا اقدام اٹھایا ہے، اگرچہ امریکہ ICC کو تسلیم نہیں کرتا اور ممکن ہے کہ اس حکم کی تعمیل نہ کرے لیکن دنیا بھر کے 124 ممالک جو اس عدالت کو تسلیم کرتے ہیں، نتانیاهو اور گالانت کی گرفتاری کے پابند ہیں۔
مزید پڑھیں: کیا ہیگ کی عدالت نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کرے گی؟
اس فیصلے کے باوجود اگر ان دونوں صہیونیست عہدیداروں کی گرفتاری عمل میں نہیں بھی لائی جاتی تب بھی یہ اقدام بذات خود عالمی سطح پر اسرائیل کی سیاسی تنہائی کو مزید گہرا کر دے گا، اس سے عالمی برادری میں اسرائیل کے رویے پر سنجیدہ سوالات اٹھیں گے اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے گا۔