سچ خبریں:امریکی صدارتی انتخابات کے قریب ہوتے ہوئے ہریس اور ٹرمپ کے مابین کانٹے کے مقابلے کے پیش نظر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان میں سے کسی کے صدر بننے کی صورت میں امریکہ کی تائیوان پالیسی کس سمت جائے گی۔
حالیہ برسوں میں تائیوان امریکہ اور چین کے درمیان جغرافیائی سیاست کا ایک اہم محور بن چکا ہے، چین تائیوان کو اپنا داخلی معاملہ قرار دیتے ہوئے دیگر ممالک سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس میں مداخلت نہ کریں، بیجنگ نے کئی بار واشنگٹن پر تنقید کی ہے کہ وہ تائیوان کی حمایت، دفاعی معاہدے اور اسلحہ کی فراہمی سے چین کی خودمختاری کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نئی امریکی حکومت کی ایران کے بارے میں پالیسی کیا ہوگی؟
امریکہ کے ساتھ تائیوان کے ساتھ تعلقات اور اسلحہ کی فراہمی کے باعث تائیوان کے مسئلے پر چین کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، کیونکہ چین تائیوان کو اپنا علاقہ مانتا ہے اور مغربی ممالک کی کسی بھی مداخلت کو اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔
تائیوان جغرافیائی طور پر ایک ایسے علاقے میں واقع ہے جو عالمی جہازرانی اور تجارت کے لیے اہم راستہ ہے، تائیوان عالمی الیکٹرانکس اور کمپیوٹر چپ سپلائی چین میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
چین کے بڑھتے ہوئے علاقائی اثرات اور امریکہ کے سمندری راستوں کی حفاظت کے عزم کے پیش نظر، تائیوان امریکہ اور چین کے مابین جغرافیائی سیاست میں ایک اسٹریٹجک نقطہ بن چکا ہے۔
امریکہ نے حالیہ برسوں میں تائیوان کی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لیے کافی فوجی امداد فراہم کی ہے، جس میں جدید ہتھیاروں کی فروخت، عسکری ساز و سامان اور تائیوانی فورسز کی تربیت شامل ہے۔
اسلحہ کی فروخت: امریکہ نے مسلسل جدید ہتھیار جیسے کہ جدید میزائل، جنگی طیارے، فضائی دفاعی نظام، اور مواصلاتی ساز و سامان تائیوان کو فراہم کیے ہیں، صرف 2020 میں، امریکی محکمہ خارجہ نے 5 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے فوجی سازوسامان کی فروخت کی منظوری دی۔
2023 میں بھی امریکہ نے تائیوان کے لیے 500 ملین ڈالر کا فوجی پیکج مختص کیا۔ چند روز قبل، امریکی محکمہ دفاع نے 2 ارب ڈالر کا جدید فضائی دفاعی نظام تائیوان کو فراہم کرنے کی منظوری دی ہے۔
دفاعی اور انٹیلیجنس آلات: امریکہ نے تائیوان کو جدید ریڈار سسٹم اور نگرانی کے آلات فراہم کیے ہیں، جو تائیوان کو چینی فوجی سرگرمیوں کی بہتر نگرانی میں مدد دیتے ہیں۔
تربیتی تعاون اور فوجی مشقیں: امریکی اور تائیوانی مسلح افواج محدود پیمانے پر مشترکہ فوجی مشقیں بھی کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں، امریکہ نے تائیوانی فورسز کی تیاری اور فوجی صلاحیت میں بہتری کے لیے تربیتی اور مشاورتی پروگرامز کا انعقاد کیا ہے۔
امریکہ کی آئندہ حکومت میں تائیوان کے مسئلے کا رخ
امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ (ریپبلکن) اور کامالا ہیرس (ڈیموکریٹ) کے تائیوان پر ممکنہ پالیسی کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں۔
الف. ٹرمپ کا تائیوان سے متعلق ممکنہ موقف
اپنے پہلے دور صدارت میں ٹرمپ نے چین پر تجارتی دباؤ ڈالنے اور تائیوان کی حمایت کرکے چین پر دباؤ بڑھانے کا عزم ظاہر کیا۔ 2016 میں انتخاب جیتنے کے بعد ٹرمپ نے تائیوان کی صدر تسائی انگ وین سے بات کی، جس نے چین میں غصے کو ہوا دی اور تائیوان کے لیے امریکی حمایت کی امید پیدا کی۔
ٹرمپ نے چین کے خلاف تجارتی جنگ چھیڑی اور اقتصادی و سیکیورٹی پالیسیاں سخت کیں، جس نے امریکہ-تائیوان تعلقات پر بھی اثر ڈالا۔ اگر دوبارہ منتخب ہوئے تو ٹرمپ شاید اپنی پالیسیوں کو جاری رکھیں گے، اور تائیوان کے ساتھ فوجی و اقتصادی تعلقات کو مزید فروغ دیں گے۔ ٹرمپ چین پر دباؤ بڑھانے اور امریکہ کی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے تائیوان کو ایک اہم ذریعہ بنا سکتے ہیں۔
ب. ہیرس کا تائیوان سے متعلق ممکنہ موقف
کامالا ہیرس، ایک ڈیموکریٹ ہونے کے ناطے، بین الاقوامی اداروں اور اتحادیوں کے ساتھ سفارت کاری کو ترجیح دیتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ کو چین اور تائیوان سے متعلق اپنی پالیسیوں میں بین الاقوامی تعاون سے کام لینا چاہیے۔
ٹرمپ کے برعکس، ہیرس ممکنہ طور پر چین کے ساتھ نرم رویہ اپنائیں گی اور بین الاقوامی مسائل کے حل کے لیے سفارتی طریقے تلاش کریں گی، ان کا یہ موقف چین کے ساتھ کشیدگی میں کمی کا باعث بن سکتا ہے، مگر وہ چین کے فوجی خطرے کے پیش نظر تائیوان کی حمایت بھی جاری رکھ سکتی ہیں۔
ہیرس نے دو سال قبل تائیوان کے نائب صدر ولیم لائی سے ملاقات کی تھی، جس پر چین کی جانب سے ناراضگی ظاہر کی گئی۔
اگر ہیرس امریکی صدر منتخب ہوئیں تو وہ تائیوان کے معاملے میں زیادہ سفارتی اور محتاط رویہ اختیار کر سکتی ہیں۔ امکان ہے کہ وہ تائیوان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کی حمایت کریں گی، مگر بڑے پیمانے پر اسلحے کی فروخت یا فوجی حمایت کی بجائے سفارت کاری کو ترجیح دیں گی۔
ہیرس ممکنہ طور پر جاپان، جنوبی کوریا اور دیگر علاقائی اتحادیوں کے ساتھ تعاون پر بھی زور دیں گی تاکہ چین پر دباؤ کو عالمی سطح پر بڑھایا جا سکے۔
نتیجہ
بین الاقوامی تعلقات میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور امریکہ و چین کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت کے پیش نظر، تائیوان 2024 کے امریکی انتخابات میں اہم موضوعات میں شامل ہے، ٹرمپ یا ہیرس کی جیت کا تائیوان اور بحر الکاہل کے خطے پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔
مزید پڑھیں:کیا امریکی صدر کے بدلنے سے واشنگٹن کی صیہونی حمایت میں فرق آئے گا؟
ٹرمپ تائیوان کو چین کے خلاف امریکی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے ایک ذریعہ سمجھتے ہیں اور ممکنہ طور پر تائیوان کے ساتھ فوجی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کریں گے۔ ان کا رجحان غالباً چین پر دباؤ بڑھانے اور تائیوان کو جغرافیائی سیاست میں کارڈ کے طور پر استعمال کرنے کی جانب ہوگا۔
اس کے برعکس ہیرس زیادہ سفارتی اور کثیر جہتی تعاون کی طرف مائل ہیں۔ وہ تائیوان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے سفارتی ذرائع کا استعمال کریں گی اور چین کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کریں گی۔