(سچ خبریں) پوری دنیا میں مسلمان رمضان المبارک عقیدت و احترام اور جذبہ عبودیت کے ساتھ منارہے ہیں لیکن جنوبی ایشیا کا ایک بدقسمت خطہ ایسا ہے جہاں کے مکین آزادی سے محروم اور قابض فوجوں کے محاصرے میں ہیں انہیں مساجد میں نماز اور تراویح پڑھنے کی بھی اجازت نہیں ہے اور آئے روز انہیں اچانک چھاپوں اور گھر گھر تلاشی کا سامنا ہے۔
وہ گھروں میں سحری کررہے ہوتے ہیں یا افطار کے وقت گھر کے صحن میں اجتماعی افطاری کے لیے دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو ٹھوکر سے دروازہ کھولتے اور دسترخوان پر موجود نوجوان کو گلے سے پکڑ کر لے جاتے ہیں اور گھر میں صف ماتم بچھ جاتی ہے، کیونکہ اہل خانہ کو معلوم ہے کہ ان کے جس لخت جگر کو فوجی درندے پکڑ کر لے گئے ہیں وہ اب کبھی زندہ حالت میں واپس نہیں آئے گا، بس چند دنوں بعد یہ اطلاع ملے گی کہ اسے فوج کے ساتھ جھڑپ میں مار دیا گیا ہے۔
قارئین سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم مقبوضہ کشمیر کا ذکر کررہے ہیں جہاں رمضان المبارک میں بھی یہ خونی کھیل آئے روز کھیلا جارہا ہے، اس وقت پورا بھارت کورونا کی شدید لپیٹ میں ہے اس وبا سے نمٹنے کے لیے بھارت کے تمام انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں اور یومیہ ہلاکتوں کا گراف بہت اوپر چلا گیا ہے لیکن پوری دنیا مقبوضہ کشمیر میں کورونا کی صورت حال سے بالکل بے خبر ہے، کیونکہ وہاں بدستور لاک ڈائون نافذ ہے اور خبروں پر پہرا ہے۔
مقبوضہ علاقے میں صحت کی سہولتیں پہلے ہی کمیاب تھیں اب کورونا کی تیسری لہر کے دوران کشمیری عوام کو نہایت سنگین حالات کا سامنا ہے، انہیں پابندیوں کے سبب بیرونی دنیا سے بھی کوئی امداد نہیں مل پارہی ہے، لیکن ان تمام مشکلات اور صبر آزما حالات کے باوجود کشمیری عوام کے حوصلے بلند اور اپنی آزادی کے لیے پرعزم ہیں ان کا سب سے بڑا سہارا پاکستان ہے۔
وہ اپنے ربّ اور اپنے دست و بازو پر بھروسا کرنے کے بعد پاکستان کے حکمرانوں اور اس کی افواج کی طرف دیکھتے اور ان سے کسی فیصلہ کن اقدام کی توقع رکھتے ہیں، ان دنوں بھی جب کہ وہ بہت مشکل میں ہیں ان کے در و دیوار پاکستانی حکمرانوں اور پاکستانی فوج کے حق میں خیر مقدمی پوسٹرز سے سجے ہوئے ہیں اور ان کی سڑکیں پاکستان کے حق میں نعروں سے گونج رہی ہیں۔
وہ بھارتی حکمرانوں کو بار بار باور کرارہے ہیں کہ وہ بھارت کے شہری نہیں، پاکستان کے باشندے ہیں اور پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، بھارت اپنی تمام تر طاقت آزمائی اور ظلم وجود کے باوجود ان کا یہ حق سلب نہیں کرسکتا۔
دوسری طرف پاکستانی حکمرانوں کا رویہ یہ ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنے اور اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لیے بے چین ہوئے جارہے ہیں، ان کا موقف ہے کہ بھارت مذاکرات کے لیے حالات کو سازگار بنائے، اس سلسلے میں وہ بھارت پر 5 اگست 2019ء کا اقدام واپس لینے کی شرط عائد کرتے ہیں۔
یہ وہ اقدام ہے جس کے تحت بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو آئینی طور پر اپنے اندر ضم کرلیا تھا، مگر بھارت کسی تیسرے فریق کے دبائو میں آکر (جس کا امکان بہت کم ہے) اپنا یہ اقدام واپس بھی لے لیتا ہے تو کیا اس سے مقبوضہ کشمیر پر اس کی گرفت کمزور پڑ جائے گی اور کیا اس طرح کشمیری عوام کے تمام انسانی و شہری حقوق بحال ہوجائیں گے اور وہ سُکھ کا سانس لے سکیں گے؟۔
یہ بھارت کی محض ایک نمائشی کارروائی ہے جس کا بنیادی مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلاشبہ مذاکرات کی میز پر ہی مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے، جنگ یا طاقت آزمائی سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا بلکہ اس سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں، جنگ کے بعد بھی مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دو بڑی جنگیں ہوچکی ہیں، ان دونوں جنگوں کے بعد فریقین مذاکرات کی میز پر بیٹھے اور ان کے درمیان معاہدہ تاشقند اور شملہ سمجھوتا طے پایا، شملہ سمجھوتے کے نتیجے میں بھارت سے نوے ہزار پاکستانی جنگی قیدیوں کی واپسی ممکن ہوئی، اس لیے یہ کہنا کہ مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل نہیں ہوسکتا درست نہیں ہے، اس وقت مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد دو محاذوں پر جاری ہے، ایک محاذ سیاسی ہے جس کی قیادت سید علی شاہ گیلانی کررہے ہیں، دوسرا محاذ عسکری ہے جس کی قیادت حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کے پاس ہے۔
یہ دونوں قائدین بھی مذاکرات کے قائل ہیں لیکن ان کا موقف ہے کہ یہ مذاکرات بامقصد، نتیجہ خیز اور کشمیری عوام کے پیدائشی حقوق کی بازیابی پر مبنی ہونے چاہیئے۔
چنانچہ یہ دونوں قائدین بار بار اس متفقہ رائے کا اظہار کرچکے ہیں کہ اگر بھارت مسئلہ کشمیر پر مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے وہ یہ تسلیم کرے کہ مقبوضہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اور اٹوٹ انگ کی رٹ ترک کردے پھر مذاکرات کے لیے فضا کو سازگار بنانے کی غرض سے اپنی فوجیں مقبوضہ علاقے سے نکال لے اور کشمیریوں کے تمام انسانی حقوق بحال کردے، پھر آخری مرحلے میں وہ پاکستانی اور کشمیری نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر یہ طے کرے کہ کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دینے کے لیے کیا متفقہ لائحہ عمل اختیار کیا جاسکتا ہے۔
سید علی شاہ گیلانی کہتے ہیں کہ اگر بھارت یہ شرائط پوری نہیں کرتا تو اس کے ساتھ مذاکرات نہیں ہونے چاہیئے اور نہ ہی پاکستان کو بھارت کے ساتھ مذاکرات کی ہامی بھرنی چاہیے۔ کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ گزشتہ ستر سال کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان ان شرائط کے بغیر سینکڑوں بار مذاکرات ہوچکے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکا۔
محب وطن حلقوں کی متفقہ رائے ہے کہ اگر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کے لیے کشمیری قائدین کے موقف کے ساتھ ہم آہنگی پیدا نہ کی تو ممکن ہے کہ مصالحت کنندوں کے دبائو میں آکر وہ بھارت سے مذاکرات کر بیٹھیں جس کے اشارے بھی مل رہے ہیں اور ان مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے تعلقات بھی معمول پر آجائیں لیکن مقبوضہ کشمیر میں بدستور لہو بہتا رہے گا اور اس کی تمام تر ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوگی، پاکستان ہر اعتبار سے کشمیری عوام کے حقوق کا ضامن ہے اسے کسی مرحلے پر بھی ان کے حقوق پر سودے بازی نہیں کرنی چاہیے۔