بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ناکام بنگلہ دیشی دورہ

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ناکام بنگلہ دیشی دورہ

(سچ خبریں) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بہت ہی خوشی اور کافی ساری سازشیں لے کر بنگہ دیش پہونچے تھے لیکن ان کے تمام منصوبے اس وقت نقش برآب ہوگئے جب شیخ حسینہ نے ان کی سازش کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔

26مارچ 2021ء بھارت اور بنگلا دیش کے تعلقات میں ایک سیاہ دن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، بھارتی وزیر اعظم کی تقریر ختم ہوتے ہی شیخ حسینہ نے اعلان کیا کہ بنگلا دیش پاکستان، چین سمیت دنیا کے کسی ملک سے جنگ نہیں کرنا چاہتا۔

بھارتی وزیراعظم مودی بنگلا دیش میں، ایک تیر سے دو شکار کھیلنے گئے تھے لیکن بنگلا دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے سامنے اپنی ناکام عیاریوں کی وجہ سے مودی کو ناکام لوٹنا پڑا۔

مودی اپنے اس دورے سے جہاں یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ بھارت، بنگلا دیش کو بہت اہمیت دیتا ہے وہیں مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے مدنظر متوا بنگالیوں کا دل جیتنے کے لیے ان کے متبرک مقام اورکانڈی ٹھاکر باڑی بھی گے، لیکن مغربی بنگال اسمبلی کے انتخابات میں مودی کی شکست لکھی جا چکی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی آسام کی طرح مغربی بنگال میں مسلم بنگالی عوام کی شہریت کو منسوخ کر نے کی تیاری میں مصروف ہیں۔

ڈھاکا سے شائع ہونے والے اخبار ڈیلی اسٹار کے مطابق کورونا وبا شروع ہونے کے بعد سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر 26 مارچ 2021ء کو ڈھاکا پہنچنے تو بنگلا دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ان کا خیر مقدم کیا لیکن اس دوران بنگلا دیش کی تمام ہی جامعات میں مودی کے دورے کے خلاف جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم زبردست مظاہرے کر رہی تھی۔

ان مظاہروں کے بارے میں وزیر خارجہ عبد المومن کا وضاحت پیش کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بنگلا دیش ایک جمہوری ملک ہے، جہاں لوگوں کو اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی ہے اور وہ انہی جمہوری اقدار کا فائدہ اٹھا کر جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں مودی کے دورے کی مخالفت کر رہے ہیں، حکومت کو اس پر کوئی تشویش نہیں ہے۔

مودی دو روزہ دورے کے دوران بنگلا دیش کی آزادی کی گولڈن جوبلی تقریبات اور بنگ بندھو شیخ مجیب الرحمن کی صد سالہ سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کے علاوہ اورکانڈی ٹھاکر باڑی کا بھی دورہ کریں گے۔

جو متوا بنگالیوں کے روحانی پیشوا گرو ہری چند ٹھاکر کی جائے پیدائش ہے۔ متوا بنگالی مغربی بنگال کے الیکشن میں اہم عنصر ہیں، بہروپیا مودی ڈھاکا پہنچے تو انہوں نے شیخ حسینہ کو متاثر کر نے کے لیے شیخ مجیب الرحمن جیسا لباس بھی پہنا اور یہ بھی اعلان کیا کہ وہ شیخ حسینہ کے والد بنگ بندھو کے نام سے مشہور بنگلا دیش کے پہلے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن کی قبر پر خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ٹنگی پاڑہ بھی جائیں گے۔

اس دورے کے دوران مودی بول بچن سے زیادہ کچھ نہیں تھا، بھارت اور بنگلا دیش کے درمیان سب سے بڑا تنازع تیستا ندی کے پانی کی تقسیم کا ہے، اس دورے میں خیر سگالی کی باتیں خوب خوب کی گئیں لیکن سب سے بڑے مسئلے کا کوئی حل نکلنے والا نہیں ہے یہ ٹھیک ہے کہ بھارت کے تمام پڑوسی ملکوں میں گوکہ بنگلا دیش کے ساتھ اس کے سب سے بہتر تعلقات ہیں اور شیخ حسینہ حکومت کو بھارت نواز کہا جاتا ہے لیکن حالیہ برسوں میں بنگلا دیش میں بھی بھارت مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں۔

اس کی ایک وجہ بھارتی سرحدی فورسز بی ایس ایف کی فائرنگ میں بعض بنگلا دیشی شہریوں کی ہلاکت بھی ہے، 2017-18ء کے دوران اگر بھارت انفرا اسٹرکچر اور دیگر ضروری شعبوں میں بنگلا دیش کی مدد کرتا تو دونوں ملکوں کے تعلقات مزید بہتر ہو سکتے تھے لیکن اب یہ سب کچھ چین کر رہا اور بنگلا دیش کا جھکاؤ اب بھارت سے زیادہ چین کی جانب ہے اسی لیے مودی کے دورے کے خلاف مظاہروں پر حکومت  بنگلا دیش کا ردِعمل معمولی نوعیت کا تھا۔

بھارتی خارجہ سیکرٹری ہرش وردھن شرنگلا کا کہنا تھا کہ نریندر مودی دورے کے بارے یہی سوچتے ہیں کہ ان کا یہ دورہ وزیراعظم شیخ حسینہ کی بصیرت افروز قیادت میں بنگلا دیش کی شاندار اقتصادی اور ترقیاتی کامیابیوں کا نہ صرف اعتراف ہے بلکہ بھارت کی طرف سے ان کی مسلسل حمایت کے وعدے کا اظہار بھی ہے، کورونا کے خلاف بھی بنگلا دیش کی جنگ میں بھارت کی حمایت اور اتحاد کا اظہار کرتا ہوں۔

بھارتی خارجہ سیکرٹری نے مودی کے دورے کے حوالے سے اپنے بیان میں کہا، ’’26مارچ کی تاریخ کافی اہم ہے کیونکہ اسی دن بنگ بندھو مجیب الرحمن نے مارچ1971ء کو آزادی کا اعلان کیا تھا، اس لحاظ سے مودی کا دورہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ اس دورے میں کتنے معاہدے ہوں گے، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی بنگلا دیش کی آزادی کی پچاسویں اور شیخ مجیب الرحمن کی صدسالہ سالگرہ تقریبات میں شامل ہو رہے ہیں، بنگلا دیش کی آزادی میں نہ صرف وہاں کے شہریوں نے بلکہ بھارتی فوج نے بھی اپنی جانیں قربان کی تھیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بنگلا دیش میں 27مارچ کو بھی ہزاروں افراد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ بنگلا دیش کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس تشدد کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔

ایک دن قبل بھارتی وزیراعظم کے دورے کے موقع پر مذہبی گروپ اور پولیس کے درمیان جھڑپ میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس تشدد کا آغاز ڈھاکا کی مرکزی مسجد سے ہوا تھا جو بعد میں کئی اضلاع تک پھیلا اور اس میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔ بھارتی وزیراعظم مودی کے دورہ بنگلا دیش کے خلاف مظاہرے میں چار افراد کی ہلاکت کی خبر بھی اے ایف دے رہا ہے۔

ڈھاکا سے ذرائع ہلاک ہونے والے مظاہرین کی تعداد 23بتا رہے ہیں۔ بنگلا دیش بارڈر گارڈ کے ترجمان نے بتایا کہ26مارچ کی شب سے فوج تعینات کی گئی ہے تاہم تعداد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔

سوشل میڈیا پر تشدد کے واقعات کے حوالے سے مواد شیئر کرنے کے بعد حکام نے بظاہر فیس بک تک رسائی بھی محدود کر دی ہے۔

27مارچ کو بھی پولیس تشدد اور انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے دورے کے خلاف ہزاروں افراد نے احتجاج کیا۔ جماعت حفاظت اسلام کی جانب سے ملک گیر احتجاج کی اپیل کی گئی تھی۔ حفاظت اسلام کے ہزاروں مظاہرین نے ہاٹھ ہزاری میں احتجاج کیا۔

26مارچ 2021ء کو اس علاقے میں مظاہرین کے خلاف بدترین تشدد بنگلا دیش بارڈر گارڈ کیا گیا تھا جماعت حفاظت اسلام نے الزام لگایا ہے کہ بدترین تشدد بنگلا دیش بارڈر گارڈکے اہلکاروں نے کیا ہے۔

بھارت اور بنگلا دیش کے تعلقات کے پلوں سے بہت سارا کڑوا پانی گزر چکا اور گزر رہا ہے، نریندر مودی اپنی تقریر کے دوران اس بات کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ وہ بنگلا دیش اور پاکستان کو آپس میں لڑا دیں لیکن شیخ حسینہ نے اس بات کا اعلان کر کے کہ وہ کسی بھی ملک جنگ نہیں کرنا چاہتیں مودی کو مایوس کر دیا ہے۔

بنگلا دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے مجیب جیکٹ پہن کر مودی بنگلا دیش کے صدر عبدالحامد اور وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے ساتھ بنگلا دیش کے قومی دن کی تقریب میں شرکت کی، لیکن اب وقت بہت آگے نکل چکا ہے۔

شیخ حسینہ اور مودی دونوں ہی بہت ساری مشکلات سے دو چار ہیں اور دونوں ہی اپنے عوام کی مرضی کے خلاف سر گرمیوں میں ملوث ہیں۔

مودی نے 26مارچ کو خود کہا ہے کہ بنگالیوں کو کبھی غلامی تسلیم نہیں ہے لیکن مودی بنگال کی تاریخ سے نابلد ہیں۔ وہ قوم کی تاریخ، تہذیب و ثقافت سے واقف نہیں اور محض لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کر کے پھوٹ ڈالنے کی سیاست کر رہے ہیں۔

مودی کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ بنگالیوں کی اسلام سے محبت غیر مشروط ہے اور اگر ان کی اسلامی تحریکوں کے رہنماؤں نے مودی کو اسی زبان میں جواب دیا تو مودی کو کہیں پناہ نصیب نہیں ملے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے