سچ خبریں: بریکس (BRICS) گروپ میں شمولیت کے لیے نہ صرف کئی ایشیائی اور افریقی طاقتیں دلچسپی ظاہر کر رہی ہیں، بلکہ بیلاروس جیسے ممالک بھی اس گروپ میں شامل ہونے کے خواہاں ہیں، جس کا مطلب عالمی نظام میں طاقت کے توازن میں واضح تبدیلی آرہی ہے۔
ترکی کی بریکس میں شمولیت کی باضابطہ درخواست کا اعلان مغربی دنیا کے لیے ایک نیا دھچکا ثابت ہوا ہے،نیٹو کا رکن اور یورپی یونین کا امیدوار ملک ترکی بھی بریکس میں شامل ہونے کی خواہش رکھتا ہے، جس میں چین، روس اور ایران جیسے بڑے ممالک شامل ہیں، جو مغربی مفادات کے مخالف ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: برکس بینکنگ سسٹم کا ڈالر اور ورلڈ بینک کیا اثر پڑ سکتا ہے؟
سوال یہ ہے کہ نیٹو کا رکن ملک بریکس میں شمولیت کا خواہاں کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب عالمی نظام میں طاقت کے توازن میں تبدیلی کے نئے حقائق کو بے نقاب کرتا ہے۔
پہلے بریکس میں صرف برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ شامل تھے، لیکن اب مصر، ایتھوپیا، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی اس گروپ کا حصہ بن چکے ہیں،مزید کئی ممالک بھی بریکس میں شمولیت کے منتظر ہیں۔
ایشیا اور افریقہ کی طاقتور اقوام کے علاوہ، بیلاروس جیسے ممالک بھی بریکس میں شامل ہونے کے خواہاں ہیں، اگر ہم ان ممالک کی آبادی، اقتصادی ذخائر اور ممکنہ صلاحیت کو دیکھیں، تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بریکسی دنیا تشکیل پا رہی ہے۔
ایک ایسی دنیا جہاں امریکہ اور یورپ عالمی قیادت کے مرکزی کردار میں نہیں ہیں، بلکہ ایشیا اور افریقہ کی قیادت میں ایک نیا اقتصادی نظام ابھر رہا ہے۔
مغرب کی غنڈہ گردی کے خلاف ردعمل
بریکس کے بارے میں روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا کے بیانات خاص اہمیت رکھتے ہیں کیوں کہ انہوں نے بریکس میں شمولیت کی خواہش رکھنے والے ممالک کی وجوہات کو بیان کرتے ہوئے امریکی طاقت کی ہالیوودی فطرت کو بیان کیا ہے۔
زاخارووا کا کہنا تھا کہ دنیا امریکی جارحیت سے تنگ آ چکی ہے، ممالک بین الاقوامی قوانین کی بنیاد پر تعلقات کو فروغ دینا چاہتے ہیں، لیکن امریکہ ہالیوود کی فلموں کے دیوانے کی طرح ہر چیز کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب تک 30 سے زائد ممالک بریکس میں شمولیت کے لیے درخواست دے چکے ہیں۔
ایشیا کی آواز
چین اور بھارت طویل عرصے سے بریکس کے رکن ہیں لیکن ایران، سعودی عرب اور امارات جیسے نئے ارکان کی شمولیت سے ایشیائی ممالک کا وزن اور زیادہ ہو گیا ہے۔
ایشیائی اور افریقی ممالک بریکس کو ان عالمی اداروں کا متبادل سمجھتے ہیں جو ہمیشہ مغربی طاقتوں کے زیر اثر رہے ہیں اور شمال و جنوب کے درمیان عدم مساوات کو فروغ دیتے رہے ہیں۔
بریکس کے نئے ارکان کو امید ہے کہ اس گروپ کی رکنیت سے انہیں ترقیاتی فنڈنگ، تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع میسر آئیں گے۔
اس وقت بریکس کے رکن ممالک دنیا کے تیزی سے ترقی کرنے والے بازاروں کے مالک ہیں، جو اپنے رکن ممالک کے لیے تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی ترقی کے بے پناہ مواقع فراہم کر رہے ہیں۔
بریکس میں شمولیت سے ممالک کو نہ صرف عالمی سطح پر سیاسی بصیرت اور اثر و رسوخ حاصل ہوتا ہے، بلکہ وہ علاقائی اور بین الاقوامی اداروں میں بھی زیادہ فعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اقتصادی تجزیہ کاروں کے مطابق، بریکس مغربی مالیاتی اداروں کا متبادل بنتا جا رہا ہے، مغربی طاقتوں کے زیرِ اثر مالیاتی ادارے جیسے کہ عالمی بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) اور جی-7 ہمیشہ مالیاتی پالیسیوں کو اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ اس سے دنیا میں غربت اور عدم مساوات میں اضافہ ہو۔
کرونا وائرس کے دوران، مغربی ممالک نے مالیاتی حربوں کے ذریعے ویکسین کی مارکیٹ پر قبضہ کر لیا جس سے دیگر ممالک اس نتیجے پر پہنچے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مغربی غلبے کے خلاف اقدامات کیے جائیں اور غیر مغربی گروپس کو مضبوط بنا کر طاقت کا توازن بدلا جائے۔
بریکس میں شمولیت ممالک کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی اور اقتصادی شراکت داروں کو متنوع بنائیں اور اپنی وابستگی کسی ایک ملک یا بلاک تک محدود نہ رکھیں۔
ایران، جو خطے میں ایک مضبوط طاقت ہے، سعودی عرب، جو دنیا کا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک ہے اور متحدہ عرب امارات، جو علاقائی تجارت میں سرگرم ہے، نے بریکس میں شامل ہو کر اس کی طاقت میں اضافہ کیا ہے، اگر ترکی بھی اس گروپ میں شامل ہو جائے تو بریکس عالمی سطح پر مزید مؤثر کردار ادا کر سکے گا۔
ملائیشیا، تھائی لینڈ، الجزائر اور بیلاروس نئے ارکان
دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک انڈونیشیا بھی بریکس میں شمولیت کی خواہش رکھتا ہے، اسی دوران تھائی لینڈ اور ملائیشیا جیسے اہم ایشیائی ممالک نے بھی بریکس میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے، ان کی شمولیت سے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کا بلاک مزید مضبوط ہوگا، جس سے بریکس اور آسیان کے درمیان تعاون بڑھنے کے امکانات پیدا ہوں گے اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
افریقہ میں بھی کئی ممالک بریکس میں شمولیت کی کوشش کر رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ اور ایتھوپیا کے بعد الجزائر جیسے گیس پیدا کرنے والے اہم ملک کی شمولیت سے بریکس کا افریقی اثر و رسوخ مزید بڑھ جائے گا۔
اس کے ساتھ ہی جمہوریہ کانگو، کومور اور گابن جیسے ممالک بھی اپنی درخواستیں دے چکے ہیں، وسطی ایشیا میں قزاقستان اور آذربائیجان نے بریکس میں شمولیت کے لیے درخواست دی ہے جبکہ لاطینی امریکہ کے دو ممالک بولیویا اور کیوبا بھی بریکس کا حصہ بننے کے خواہاں ہیں۔
بریکس میں اراکین کی بڑھتی ہوئی تعداد دراصل عالمی جغرافیائی سیاست میں دو قطبی مقابلے کی شدت کا براہِ راست جواب ہے، جو عالمی سیاسی منظرنامے میں غیر یقینی کی صورتحال میں اضافہ کر رہی ہے۔
اگر لاطینی امریکہ کے دو ممالک، وینزویلا اور ویتنام بھی بریکس میں شامل ہو جائیں، تو یہ گروپ عالمی اقتصادی توازن پر گہرا اثر ڈالے گا۔
مزید پڑھیں: بریکس ایک عالمی کھلاڑی اور مغرب کا متبادل
اسی دوران، بیلاروس، جو واضح طور پر نیٹو اور مغربی پالیسیوں کے خلاف کھڑا ہے، بھی بریکس میں شامل ہو کر اس کی طاقت کو مزید بڑھائے گا، ان کے علاوہ، بنگلہ دیش، بحرین، نائجیریا اور سینیگال جیسے ممالک بھی بریکس میں شمولیت کے راستے پر گامزن ہیں۔