سرینگر: (سچ خبریں) غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں مودی حکومت نے ایک متنازعہ اقدام کے تحت ایک لاکھ 20ہزار سے زائدخاندانوں کے راشن کارڈمنسوخ کرکے انہیں شدید مشکلات سے دوچارکر دیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق اس فیصلے پر متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں میں شدیدغم و غصہ پایاجاتا ہے کیونکہ ہزاروں خاندانوں کو خوراک کی بنیادی ضرورت سے محروم کردیا گیا ہے۔مقامی لوگ اور سیاسی کارکن کمزورطبقات کو نشانہ بنانے والے اس اقدام کو جابرانہ قراردیتے ہوئے اس پر شدید تنقید کررہے ہیں۔
قابض حکام کا دعوی ہے کہ منسوخی کا مقصد بے ضابطگیوں کو دور کرنا ہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات شفافیت یا مناسب جانچ کے بغیر کیے جا رہے ہیں جس سے معاشی طور پر کمزور طبقے متاثر ہو رہے ہیں۔سرینگر کے ایک رہائشی نے جس کے خاندان کا راشن کارڈ منسوخ کیاگیا ہے ، مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہم سالوں سے سبسڈی والے راشن پر انحصار کر رہے ہیں اور اب بغیرکسی نوٹس کے ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہمارا کارڈ غلط ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہ ظلم ہے،اپوزیشن رہنماؤں نے حکام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام گورننس اصلاحات کی آڑ میں کشمیریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے وسیع تر ایجنڈے کا حصہ ہے۔ جموںو کشمیر پیپلز الائنس کے ایک نمائندے نے کہاکہ حکومت لوگوں کو بنیادی ضروریات سے محروم کرنے کے لیے انتظامی ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔ راشن کارڈز کی منسوخی کا اقدام مقامی آبادی کو پسماندگی کی طرف دھکیلنے کی قابض حکومت کی پالیسیوں پر بڑھتی ہوئی تنقید کے دوران سامنے آیا ہے۔بہت سے لوگ جائیدادوں کی ضبطی سے لے کر ڈومیسائل کے نئے قوانین تک ان اقدامات کو کشمیریوں کو بے اختیار کرنے کی ایک مذموم کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔