سرینگر: (سچ خبریں) مقبوضہ کشمیر کے رہائشی محمد یوسف بٹ جائیداد کے ایک مقدمے میں چار دہائی بعد آنے والے عدالتی فیصلے سے خوش تو بہت ہیں لیکن وہ اپنے آنسوؤں کو روک نہیں پا رہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ماں زندہ ہوتیں تو وہ بہت خوش ہو جاتیں۔‘
اس کیس میں سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ تھی کہ ہندو جج نے مقدمے کی سماعت کے دوران مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید کی ایک آیت کا حوالہ دیا۔
جموں کشمیر ہائیکورٹ کے جسٹس وِنود چٹرجی کول نے گذشتہ ہفتے دیے گئے فیصلے میں ذیلی عدالتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ عدالتیں اور افسران مسلم پرسنل لا سے کیسے بے خبر ہو سکتے ہیں۔‘
جسٹس کول نے قران کی سورة النساٴ کی گیارہویں آیت کا حوالہ دے کر کہا کہ ’اسلام نے تقسیم وراثت کے واضح اصول بتائے ہیں۔ لڑکوں کو لڑکیوں سے دوگنا ملتا ہے کیونکہ ان پر بیوی، بچوں، ماں باپ وغیرہ کی کفالت کا ذمہ ہے لیکن اسلام میں لڑکیوں کو والد کی وراثت سے حصہ دینے کو ترجیح دی گئی ہے۔‘
سرینگر کے نواح میں رہنے والی مُختی نامی خاتون کو 1980 میں اُن کے بھائیوں نے والد کی وراثت سے بے دخل کر کے زینہ کوُٹ نامی علاقے میں 69 کنال زمین پر قبضہ کرلیا تھا۔
مختی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن اس دوران اُن کے بھائیوں نے محکمہ مال کے افسروں کے ساتھ ساز باز کر کے زمین کا انتقال اپنے نام کروایا۔
مختی اپنی چار بیٹیوں اور پانچ بیٹوں کی کفالت کے ساتھ ساتھ عدالت کے چکر بھی کاٹتی رہیں۔
سنہ 1996 میں ہائی کورٹ کی ڈویژن بینچ نے ان کے حق میں فیصلہ بھی سنایا تھا لیکن اُسے دوسری عدالت میں چیلنج کیا گیا اور پھر اسی سال مختی وفات پا گئیں۔