سرینگر (سچ خبریں) مقبوضہ کشمیر میں ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کے چیئرمین شبیر احمد شاہ کو بھارتی حکومت کی جانب سے جیل میں نظربند رکھنے کے چار سال مکمل ہوگئے ہیں جس پر پارٹی نے اہم بیان جاری کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں کہا کہ مزاحمتی رہنما شبیر احمد شاہ کو چار سال پہلے سرینگر سے گرفتار کرکے بھارت کے بدنام زمانہ تہاڑجیل میں نظربند کیاگیا۔
بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ ان کے خلاف سینکڑوں صفحات پر مشتمل نام نہاد چارج شیٹ پیش کی گئی ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ الزامات کو ثابت کرنے کے لئے ایک بھی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ شبیر شاہ کو جھوٹے مقدمات کے تحت مختلف جیلوں اور عقوبت خانوں میں 33 سال گزارنے پر مجبور کیا گیا، ڈی ایف پی نے کہا کہ مزاحمتی رہنما مذاکرات میں یقین رکھتے ہیں لیکن وہ ظالم بھارت کوایک ظالم کہنے سے نہیں ڈرتے۔
حریت رہنما مولانا سرجان برکاتی نے سرینگر میں پارٹی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے عید الاضحی سے پہلے غیر قانونی طور پر نظربند کشمیریوں کو رہاکرنے کا مطالبہ کیا، عبدالاحد پرہ نے مسلم لیگ کے رہنما محمد حیات بٹ کوایک اور جھوٹے کیس میں جیل بھیجنے کی شدید مذمت کی ہے۔
ادھر انجمن شرعی شیعیان کے مرکزی رہنما آغا سید مجتبیٰ عباس الموسوی الصفوی،جموں و کشمیر سالویشن موومنٹ اور کاروان ختم نبوت نے اپنے بیانات میں عید الاضحی کے موقع پر جانوروں کی قربانی پر پابندی عائد کرنے پر قابض انتظامیہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
تحریک حریت رہنما عاقب وانی اور تحریک وحدت اسلامی نے اپنے بیانات میں بیگناہ نوجوانوں کے جعلی مقابلے میں قتل کی مذمت کی۔
جموں و کشمیر ڈیموکریٹک اینڈجسٹس پارٹی کا ایک وفد شہید نوجوان شہنواز کے اہلخانہ سے اظہار یکجہتی کیلئے ضلع پلوامہ کے علاقے سامبورہ گیا۔
دریں اثنا کشمیر میڈیاسروس کی طرف سے اتوار کو جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا گیا کہ ہندوتوا نظریئے کو مودی کی سربراہی میں قائم فسطائی بھارتی حکومت کی سرپرستی میں فروغ دیا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتیہ جنتاپارٹی اور دائیں بازرو کی دیگر ہندو تنظیمیں تشدد اور تعصب کی ایک طویل اور گہری تاریخ رکھتی ہیں اور جب سے بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے اس نے مذہبی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں پر ظلم و تشدد کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بھارت کی 29 ریاستوں میں سے آٹھ میں ایسے قوانین موجود ہیں جو لوگوں کو تبدیلی مذہب سے روکتے ہیں، یہ قوانین خاص طورپر مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بنانے کیلئے وضح کیے گئے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 2014 سے 2019 کے درمیان بھارت میں غداری سے متعلق نوآبادی قانون کے تحت اقلیتی افراد کے خلاف 326 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔