سرینگر (سچ خبریں) مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پولیس اہلکاروں نے منگل کو سرینگر کے علاقے آبی گزر میں 8 محرم الحرام کا روایتی جلوس نکالنے کی کوشش کرنے والے شیعہ برادری کے جوانوں پر حملہ کر کے متعدد افراد کو زخمی اور 60 سے زائد کو گرفتارکرلیا۔
بھارتی میڈیا نے منگل کو اطلاع دی کہ بھارتی پولیس نے مقبوضہ کشمیر میں شیعہ عزاداروں پر آنسو گیس اور لاٹھیوں سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوگئے جبکہ ان میں سے کئی کو سرینگر میں گرفتار کرلیا گیا۔
کشمیر آبزرور کے مطابق، عینی شاہدین نے اطلاع دی کہ پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے سرینگر قصبے میں حسینی سوگواروں کے ہجوم کو منتشر کیا اور کئی مقامات پر پولیس نے سوگ منانے والوں کے خلاف شاٹ گن کا استعمال بھی کیا۔
واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں نواسہ رسول حضرت حسین(رہ) کی تقریبات کا انعقاد ہمیشہ ایک حساس سیاسی مسئلہ رہا ہے، اور جموں و کشمیر میں 30 سال سے زائد عرصے سے اس پر پابندی عائد ہے، لیکن میڈیا رپورٹس کے مطابق، اس ماہ (اگست) میں، جموں و کشمیر کے مقامی حکام نے پابندی ہٹانے اور خطے میں محرم کی تقریبات کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد شیعہ برادری نے جلوس نکالنے کا اعلان کیا۔
دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کے شیعہ اور سنی رہنماؤں کی جانب سے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ کورونا کے بحران کی وجہ سے کشمیر میں تمام مذہبی تقریبات منسوخ کردی گئی ہیں اور ناقدین نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی حکام کشمیر میں شیعہ اور سنی کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ دونوں مذہب کے افراد کو آپس میں لڑایا جائے۔
باخبر ذرائع کے مطابق، سرکاری عہدیداروں کو اس بات کی تشویش ہے کہ محرم کے یہ جلوس، بھارت مخالف ریلیوں میں تبدیل ہو جائیں گے اور آزادی کے نعرے لگائے جائیں گے جس کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں محرم کی تقریبات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ پچھلے سال بھی جموں و کشمیر پولیس نے امام حسین کے ماتمی جلوسوں کی کشمیر میں مخالفت کی اور ان پر حملہ کرنے کے بعد متعدد سوگواروں کو گرفتار کیا۔
مسلم اتحاد پارٹی نے 2008 میں سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ وہ کشمیر میں محرم کی ماتمی تقریبات پر عائد پابندی ختم کرے۔