سرینگر: (سچ خبریں) بھارت کے غیر قانونی طور پرزیر قبضہ جموں و کشمیر میں تقریبا 11لاکھ کسانوں کو بینکوں کے17ہزار814کروڑ روپے کے واجب الاداقرضوں کی وجہ سے شدید مشکلات کاسامنا ہے ، جس سے جموں وکشمیرمیں تیزی سے بڑھتے ہوئے زرعی بحران کی عکاسی ہوتی ہے ۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ریلیف کے لیے بار بار کی درخواستوں کے باوجودمودی حکومت کشمیری کسانوں کیلئے قرضوں کی معاگی کی کوئی اسکیم متعارف کرانے میں ناکام رہی ہے، جس سے کاشت کاروں کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
لوک سبھا میں بھارتی وزارت خزانہ کی طرف سے پیش کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال 31مارچ تک9لاکھ29ہزار سے زائد کسانوں پر تجارتی بینکوں کے 16ہزار481 کروڑ روپے واجب الادا تھے جبکہ ایک لاکھ45ہزارکشمیری کسانوں پرعلاقائی دیہی بینکوں کے ایک ہزار265کروڑ واجب اداتھے ۔5ہزار سے زائد کسان کوآپریٹو بینکوں کے 68کروڑ روپے کے مقروض تھے۔
ریزرو بینک آف انڈیا اور نیشنل بینک فار ایگریکلچر اینڈ رورل ڈویلپمنٹ کے اعداد و شمارمیں کشمیری کاشت کاروں ابتر حالت زار اور انہیں درپیش شدیدمالی مشکلات کی عکاسی ہوتی ہے ۔کشمیری کسانوںکو مسلسل کم ہوتی ہوئی آمدنی، موسم کی خرابی، اور حکومتی کی طرف سے ریلیف میں کمی کا سامنا ہے ۔
سنگین صورتحال کے باوجود،بھارتی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے تصدیق کی ہے کہ حکومت کشمیری کسانوں کا قرض معاف کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، جس سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے زرعی شعبے کو نظر انداز کرنے کے خدشات مزید گہرے ہو گئے ہیں۔
مقبوضہ کشمیرمیں کسانوں نے طویل عرصے سے کہنا ہے کہ بھارتی حکومت بھارت کے دیگر علاقوں کے کسانوں کیلئے قرضوں کی معافی کے اعلانات کرتی رہتی ہے جبکہ مقبوضہ علاقے کے کسانوں کو مسلسل نظرانداز کیاجارہاہے جوکہ دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔