?️
سچ خبریں: یدیعوت احارونوت کے تجزیہ کار رونن برگمین نے اعتراف کیا کہ اسرائیلی معاشرہ آج یہ نہیں جانتا کہ کس کی بات پر یقین کیا جائے۔ کیا انہیں نیتن یاہو یا ٹرمپ کے دعووں کو قبول کرنا چاہیے یا سی این این کی رپورٹس پر اعتبار کرنا چاہیے؟ سیکورٹی اداروں کا بھی اس معاملے میں اپنا ایک الگ روایت ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ظاہر ہے کہ ہم موضوع کو الجھا رہے ہیں، حقائق کو الٹا پیش کر رہے ہیں، تحریف کر رہے ہیں، واقعات کو چھپا رہے ہیں، جعلی واقعات تخلیق کر رہے ہیں اور مختصراً یہ کہ اسرائیلی عوام کو حقائق نہیں دے رہے۔ یہ مسئلہ غزہ میں جو کچھ ہوا اور ہونے والا ہے، یا اس وقت جب ایران کے ساتھ جنگ میں جانی نقصان بہت زیادہ بڑھ گیا، دونوں صورتوں میں درست ہے۔ ہم ایران کے ساتھ تصادم کے حوالے سے ہونے والے نقصانات اور خطرات کے بارے میں عوام سے بات نہیں کر رہے، اور نہ ہی موجودہ حالات کے بارے میں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کوئی بھی اس سوال کا جواب نہیں دے رہا کہ کیا وہ وجودی خطرہ جس کی وجہ سے اسرائیل اس جنگ میں آیا تھا، ختم ہو گیا ہے؟ کیا یہ خطرہ ویسے ہی ختم ہو گیا ہے جیسا کہ وزیراعظم کے ترجمان دعویٰ کر رہے ہیں، یا جیسا کہ موساد کے سربراہ کہتے ہیں کہ یہ خطرہ بڑی حد تک ختم ہو گیا ہے؟
برگمین نے مزید لکھا کہ کبھی کبھی نتیجہ اخذ کرنے کے لیے انٹیلیجنس یا سیکورٹی اداروں تک رسائی کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ صرف عام دستیاب معلومات پر توجہ دینا کافی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، نیتن یاہو کی جانب سے جنگ کے خاتمے کے اعلان پر جاری کردہ سرکاری بیان (جو شاید انہوں نے خود لکھا ہو) میں 72 الفاظ تھے، لیکن ان 72 الفاظ میں چار بار یہ بات دہرائی گئی کہ اس جنگ کا مقصد جوہری خطرے کو ختم کرنا تھا اور یہ مقصد حاصل ہو گیا ہے!
لیکن جیسا کہ ہم نے امریکہ کے معاملے میں دیکھا، جب صدر ٹرمپ نے تین اہداف (فردو، نطنز اور اصفہان) کے تباہ ہونے کا دعویٰ کیا، تو سی این این اور نیو یارک ٹائمز نے متضاد معلومات شائع کیں، جس کے بعد ٹرمپ نے ان پر تنقید کی۔ اسی طرح اسرائیل میں بھی فوجی اور سیکورٹی اداروں کے سربراہوں نے اپنے لیڈر کو خوش رکھنے کی کوشش کی یا کم از کم ایسی بات نہیں کہی جو بعد میں ان کے لیے پریشانی کا باعث بنے۔
یہ ماہر یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ جو کوئی بھی ان لوگوں کے بیانات کو غور سے سنتا ہے، وہ فوری طور پر ان کی مبالغہ آرائی کو بھانپ لیتا ہے۔ فضائیہ اور انٹیلیجنس سروسز کی صلاحیتوں کے بارے میں بڑھا چڑھا کر بیانات دیے گئے، جبکہ اسرائیل کو پہنچنے والا نقصان پیش گوئی سے کم تھا۔
اس صیہونی تجزیہ کار نے لکھا کہ ان کامیابیوں کا احترام کرتے ہوئے بھی یہ حقیقت ہے کہ ابھی یہ جاننا بہت جلد ہے کہ دونوں اطراف کو کتنا نقصان ہوا ہے۔ لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جوہری خطرے کے خاتمے کا دعویٰ غلط اور غیر ذمہ دارانہ ہے، حالانکہ نیتن یاہو مختلف اداروں کو شکریہ کہہ کر انہیں اپنا احسان مند بنا رہے ہیں تاکہ وہ ان کے خلاف کوئی بیان نہ دیں۔
برگمین کے مطابق، ہم نے دیکھا کہ ٹرمپ کے جنگ بندی کے اعلان کے 12 گھنٹے بعد تک اسرائیلی حکام مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے۔ وزیراعظم، سیکورٹی اداروں، اسرائیلی فوج اور انٹیلیجنس سروسز کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں تھا۔ 12 گھنٹے بعد، جب اسرائیلیوں نے واشنگٹن سے مدد کی دعا کی، تب جا کر اسرائیلی عہدیداروں نے بیانات دینا شروع کیے۔
رافائل میرون، جو کچھ عرصہ قبل اسرائیلی سیکورٹی کونسل کے خصوصی مشنز کے معاون تھے، کا کہنا ہے کہ اسرائیل تین وجوہات کی بنا پر جنگ میں آیا: ایران کا 60% تک یورینیم کی افزودگی حاصل کر لینا (جو 10 جوہری بم بنانے کے لیے کافی ہے)، ایران کا 90% تک افزودگی کی صلاحیت حاصل کر لینا، اور ایران کا امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے ناکام ہونے کے بعد "خلع سلاح” کے نام پر پیشرفت کرنا۔ میرون کا کہنا ہے کہ اب ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے کہ کیا ہم ان اہداف میں کامیاب ہوئے ہیں یا ناکام؟
میرون کے مطابق، جنگ سے پہلے اور موجودہ حالات کا موازنہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جوہری خطرہ اب بھی موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اعلیٰ معیار کے مواد تک ایران کی رسائی ممکن ہے؟ کیا فردو میں افزودگی کا عمل جاری ہے؟ کیا اصفہان میں جوہری بم بنانے کی صلاحیت مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے؟
یدیعوت احارونوت کے مطابق، وزیراعظم نے اسے وجودی خطرہ قرار دیا تھا، لیکن ابھی تک کوئی واضح جواب نہیں ملا۔ ہم نے متعلقہ اداروں سے سوالات کی ایک لمبی فہرست جمع کرائی، لیکن اسرائیلی فوج کے ترجمان، جو عام طور پر میڈیا میں بڑے دعوے کرتے ہیں، خاموش ہیں۔ نہ تو افزودہ مواد کا پتہ ہے، نہ ہی فردو کو پہنچنے والے نقصان کا کوئی تخمینہ۔
اسرائیل کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ایران نے کتنے سینٹری فیوجز تیار کیے ہیں جو ابھی تک فعال نہیں ہوئے۔ ایسے میں ایران نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے معائنہ کاروں کے سات تعاون بھی معطل کر دیا ہے۔
برگمین نے امریکہ اور اسرائیل کے درمیان تضادات کا بھی ذکر کیا۔ ٹرمپ اور سی این این کے درمیان تنازعے کے بعد، اسرائیلی انٹیلیجنس نے دعویٰ کیا کہ فردو کے تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ موساد کے سربراہ دیدی برنیاع نے ایک ویڈیو میں کہا کہ جو کچھ ہوا وہ بے مثال تھا۔ واشنگٹن میں ایک دستاویز بھی سامنے آئی جو اسرائیلی جوہری توانائی کمیٹی سے منسوب ہے، جس میں ٹرمپ کے دعووں کی تصدیق کی گئی ہے۔ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے کیونکہ اسرائیل کے انتہائی خفیہ ادارے کی دستاویز میڈیا میں لیک ہو گئی۔
عجیب بات یہ ہے کہ یہ دستاویز انگریزی میں ہے، حالانکہ اسرائیل میں عبرانی زبان رائج ہے۔ مزید یہ کہ یہ دستاویز سائنسدانوں یا ماہرین نے نہیں بلکہ ایک ایسی کمیٹی نے تیار کی ہے جس کا فردو کے نقصانات سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اتفاق سے یہ دستاویز ٹرمپ اور نیتن یاہو کے دعووں سے ہم آہنگ ہے۔
Short Link
Copied
مشہور خبریں۔
یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے برازیل کی تجویز
?️ 26 مارچ 2023سچ خبریں:برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا ڈا سلوا یوکرین میں جنگ
مارچ
اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ علاقوں میں الجزیرہ نیٹ ورک کو بند کیا
?️ 6 مئی 2024سچ خبریں: اسرائیلی ریڈیو اور ٹیلی ویژن تنظیم نے اتوار کے روز وزیر
مئی
قیدیوں کا تبادلہ صیہونیوں کو کتنا مہنگا پڑے گا؟صیہونی جنگی کابینہ کے رکن کی زبانی
?️ 7 فروری 2024سچ خبریں: صیہونی جنگی کابینہ کے ایک سینئر رکن نے کہا ہے
فروری
غزہ میں اسرائیلی قیدی کیسے رہے؟؛ صہیونی میڈیا کی زبانی
?️ 28 نومبر 2023سچ خبریں: صہیونی میڈیا نے پیر کے روز اطلاع دی ہے کہ
نومبر
صارفین کو بجلی کے بلوں کی اقساط پر 14 فیصد سود ادا کرنا ہوگا
?️ 6 جون 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) بجلی کی بُلند قیمتوں کا سامنا کرنے والے
جون
خیبرپختونخوا: مختلف اضلاع میں بارش کے باعث حادثات، 7 افراد جاں بحق
?️ 30 مارچ 2024پشاور: (سچ خبریں) خیبرپختونخوا میں موسلادھار بارشوں کے سبب مختلف اضلاع میں
مارچ
نیٹو سرد جنگ کے بعد یورپ میں فوجیوں کی سب سے بڑی تعیناتی کا خواہاں
?️ 27 جون 2022سچ خبریں: ایک ہسپانوی اخبار نے اطلاع دی ہے کہ نیٹو
جون
نیتن یاہو کا قطر کے لیے بیان
?️ 7 فروری 2025سچ خبریں: اسرائیل کے چینل 14 کو انٹرویو دیتے ہوئے نیتن یاہو نے
فروری