سچ خبریں: امریکہ میں پاکستان کے سفیر مسعود خان نے واشنگٹن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ‘آپریشن عزم استحکام’ کی کامیابی کے لیے پاکستان کو چھوٹے ہتھیار اور جدید آلات فراہم کرے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے حال ہی میں انسداد دہشت گردی کی مہم کو دوبارہ فعال کیا، تاہم وزیراعظم شہباز شریف نے واضح کیا کہ بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اس میں مقامی آبادی کو بے گھر کیا جائے گا۔
واشنگٹن کے ولسن سینٹر میں امریکی پالیسی سازوں، اسکالرز، دانشوروں، اور کارپوریٹ رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے مسعود خان نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے نیٹ ورکس کی مخالفت اور ان کا قلع قمع کرنے کے لیے ‘آپریشن عزم استحکام’ کا آغاز کیا ہے اور اس کے لیے ہمیں جدید ترین چھوٹے ہتھیاروں اور مواصلاتی آلات کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کیوں؟
سوال و جواب کے سیشن کے دوران مسعود خان نے بتایا کہ ‘آپریشن عزم استحکام’ کے تین حصے ہیں: نظریاتی، معاشرتی اور آپریشنل، جبکہ اس کے پہلے دو مرحلوں پر کام شروع ہو چکا ہے اور تیسرے مرحلے پر جلد عمل درآمد ہو گا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور امریکہ کو مضبوط سیکیورٹی روابط برقرار رکھنے، انٹیلی جنس تعاون کو بڑھانے، جدید فوجی آلات کی فروخت دوبارہ شروع کرنے اور ‘امریکی نژاد دفاعی ساز و سامان کو برقرار’ رکھنے پر کام کرنا چاہیے۔
مسعود خان کا کہنا تھا کہ یہ علاقائی سلامتی اور دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر پر قابو پانے کے لیے انتہائی اہم ہے جس سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کو بھی خطرہ لاحق ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے سلامتی اور اقتصادی مفادات آپس میں جڑے ہوئے ہیں، دو طرفہ تعلقات زمینی حقائق پر مبنی ہونے چاہئیں اور چند مسائل کی وجہ سے رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ ایک یا دو مسائل کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب نہیں ہونے چاہئیں۔
مسعود خان نے پاکستان اور امریکا کے درمیان مضبوط دفاعی تعاون کے لیے اعلیٰ سطح پر بات چیت، انسپائرڈ یونین 2024، فالکن ٹیلون اور ریڈ فلیگ جیسی مشترکہ فوجی مشقوں کی طرف اشارہ کیا۔
انہوں نے تجویز دی کہ امریکا کو کابل میں اپنی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان کو پارٹنر کے طور پر سمجھنا چاہیے اور انسداد دہشت گردی اور افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے لیے تعاون کرنا چاہیے۔
مسعود خان نے مزید کہا کہ امریکا اور پاکستان کو موجودہ شراکت داری کو استوار کرنا چاہیے اور باہمی مفادات کے پیرامیٹرز کو قائم کرنے کے لیے نئے حدود کا تعین کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ 23 جون کو وزیراعظم نے نیشنل ایکشن پلان پر مرکزی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن ‘عزم استحکام’ کے آغاز کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی قومی مہم کو دوبارہ متحرک اور مضبوط بنانے کی منظوری دی تھی۔
یہ آپریشن ایک جامع اور فیصلہ کن انداز میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کوششوں کے متعدد خطوط کو مربوط اور ہم آہنگ کرے گا۔
بعد ازاں، اس آپریشن کے خلاف مختلف سیاسی جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنماؤں کے بیانات سامنے آئے تھے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ آپریشن عزم استحکام درحقیقت آپریشن عدم استحکام ثابت ہوگا، جبکہ میاں افتخار حسین نے پنجاب میں کالعدم تنظیموں کی موجودگی کا الزام عائد کرتے ہوئے وہیں سے آپریشن عزم استحکام شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔
مزید پڑھیں: کیا آپریشن عزم استحکام حکومت کے لیے ضروری ہے؟
دوسری جانب، سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ بعض سیاسی جماعتیں آپریشن عزم استحکام پر سیاست کر رہی ہیں۔ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کثیرالجہتی پالیسی ترتیب دی جائے گی، منشیات کی روک تھام، دہشت گردوں کو سزائیں دلوانے کے لیے موثر قانون سازی ہوگی اور دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔