?️
اسلام آباد: (سچ خبریں) وزیر اعظم شہباز شریف نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے 8 سینئر افسران کو معطل کرتے ہوئے اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے تاکہ 170 ارب روپے مالیت کے بین الاقوامی سڑک منصوبے سینٹرل ایشیا ریجنل اکنامک کوآپریشن (سی اے آر ای سی، مرحلہ 3) کے ٹھیکوں میں سنگین بے ضابطگیوں، بدنیتی، جعلی ٹینڈرز، ملی بھگت اور مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات کی جا سکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسی دوران سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور ڈویژن (ای اے ڈی) نے اپنے اجلاس میں این ایچ اے کو 2 روز کی مہلت دی ہے کہ وہ ٹھوس دستاویزی ثبوتوں کے ذریعے اس معاہدے میں شفافیت کو ثابت کرے، ورنہ معاہدے کی منسوخی اور کامیاب جوائنٹ وینچر (جے وی) کی نااہلی کی سفارش کی جائے گی۔
قائمہ کمیٹی نے سوال اٹھایا کہ جب این ایچ اے گزشتہ 4 ماہ سے مطلوبہ دستاویزات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے، تو وزیراعظم کی تحقیقاتی کمیٹی کس طرح کسی نتیجے پر پہنچ سکے گی؟
یہ معاملہ پہلے ہی 5 پارلیمانی کمیٹیوں (سینیٹ اور قومی اسمبلی دونوں کی کمیٹیوں) کے ساتھ ساتھ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) میں زیرِ تفتیش ہے، تمام اداروں نے سی اے آر ای سی کے تیسرے مرحلے کے 4 حصوں میں قواعد کی خلاف ورزیوں اور بدعنوانیوں کی نشاندہی کی ہے، جسے ایشیائی ترقیاتی بینک فنڈ کر رہا ہے۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری نوٹی فکیشن پیر کو قائمہ کمیٹی میں بھی پیش کیا گیا، اس نوٹی فکیشن کے مطابق 9 این ایچ اے افسران کو معطل کیا گیا ہے، ان میں ممبر انجینئرنگ عاصم امین، ممبر امتیاز احمد کھوکھر، محمد طلحہ (ڈائریکٹر انجینئرنگ) اور پروکیورمنٹ ڈپارٹمنٹ کے 4 افسران شامل ہیں، حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ممبر سمیع الرحمٰن بھی انکوائری کا سامنا کر رہے ہیں۔
نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کے یو او نمبر 2(90)/DS(EA-I)/2025 مؤرخہ 21 اگست 2025 کے تحت وزیراعظم نے سی اے آر ای سی کے تیسرے مرحلے کے منصوبے کے معاہدے کی جانچ پڑتال کے لیے درج ذیل کمیٹی قائم کرنے کی منظوری دی ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی میں ریٹائرڈ وفاقی سیکریٹری محمد مشتاق احمد (کنوینر)، سیکریٹری وزارتِ تجارت، این ایچ اے کے ریٹائرڈ ممبر مختار احمد درانی، چیف انجینئر (ریٹائرڈ) اکبر علی اور پلاننگ کمیشن کے ممبر شامل ہیں۔
کمیٹی کے مینڈیٹ میں این ایچ اے کے ٹھیکیداروں کو بلیک لسٹ کرنے کے موجودہ طریقہ کار کا جائزہ لینا، تکنیکی بولیوں کے کھلنے کے وقت این ایچ اے کی احتیاطی جانچ کا جائزہ لینا، شکایات کے ازالے کے عمل کی شفافیت اور انصاف پسندی کا جائزہ لینا، منصوبے کے ہر مرحلے کا تجزیہ کر کے غیر ضروری تاخیر کا تعین کرنا، موجودہ عمل کے لیے آئندہ کا لائحہ عمل تجویز کرنا اور دیگر متعلقہ معاملات کا جائزہ لینا شامل ہے۔
کمیٹی کو ہدایت دی گئی ہے کہ ایک ہفتے میں وزیراعظم ہاؤس کو قابلِ عمل سفارشات کے ساتھ جامع رپورٹ پیش کرے، وزارتِ مواصلات کا دفتر کمیٹی سیکریٹریٹ ہوگا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 4 حصوں پر مشتمل سی اے آر ای سی کے تیسرے مرحلے کا معاہدہ ایک جے وی (این ایکس سی سی، ڈائنامکس کنسٹرکٹرز اور رستم ایسوسی ایٹس) کو دیا گیا تھا، حالانکہ اسی جوائنٹ وینچر کو 2 سال قبل ایک منصوبہ بروقت مکمل نہ کرنے پر این ایچ اے سے ’نااہل‘ قرار دیا گیا تھا۔
پارلیمانی کمیٹیوں نے این ایچ اے کو بھرپور وقت دیا تاکہ وہ متعلقہ دستاویزات فراہم کر سکے جن سے جے وی کمپنیوں کی اہلیت، مالی اور تکنیکی صلاحیت اور پی پی آر اے و این ایچ اے کے قوانین کی پاسداری ثابت ہو، لیکن اتھارٹی مطلوبہ کاغذات فراہم کرنے میں ناکام رہی اور اراکینِ پارلیمنٹ سمیت مختلف وزارتوں اور پی پی آر اے کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتی رہی۔
سی اے آر ای سی کا حصہ اول، دوم اور سوم تکمیل کے مختلف مراحل میں ہے، حصہ سوم کے 4 حصے درج ذیل ہیں، لاٹ نمبر ایک 58 کلومیٹر (راجن پور تا جام پور)، لاٹ نمبر دو 64 کلومیٹر (جام پور تا ڈیرہ غازی خان)، لاٹ نمبر تین 112 کلومیٹر (ڈیرہ غازی خان تا ٹِبی قیصرانی)، لاٹ نمبر چار 96 کلومیٹر (ٹِبی قیصرانی تا ڈیرہ اسمٰعیل خان)۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور کے 2 اگست کو ہونے والے گزشتہ اجلاس میں این ایچ اے کو 15 دن کی آخری مہلت دی گئی تھی کہ مطلوبہ تمام دستاویزات فراہم کرے، لیکن پیر کو اجلاس میں بھی این ایچ اے یہ ریکارڈ پیش نہ کر سکی۔
این ایچ اے کے چیئرمین شہریار سلطان نے کمیٹی کو بتایا کہ کچھ سوالات کے جوابات متعلقہ کمپنیوں اور محکموں سے اب تک موصول نہیں ہوئے، جب کہ کچھ معلومات وزارتِ مواصلات کو فراہم کی جا چکی ہیں۔
’انتہائی سنگین معاملہ‘
سینیٹر کامل علی آغا نے افسران کی بڑی تعداد میں معطلی کو انتہائی سنگین معاملہ قرار دیا اور وضاحت طلب کرلی، کمیٹی کا مؤقف تھا کہ کابینہ ڈویژن اور وزیراعظم ہاؤس سے جاری نوٹی فکیشن کے ساتھ معطل افسران کے خلاف چارج شیٹ بھی منسلک ہونی چاہیے تھی۔
سی اے آر ای سی حصہ اول کے تحت شندور-گلگت روڈ منصوبے پر بات کرتے ہوئے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ آپ لوگ اس منصوبے کا دفاع بھی نہیں کر سکتے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹھیکہ دسمبر 2021 اور فروری 2022 میں الاٹ کیا گیا، یہ حیران کن ہے کہ وہی کمپنی (نِنگشیا کمیونیکیشن کنسٹرکشن کمپنی) جو سی اے آر ای سی حصہ دوم (شکارپور-راجن پور) اور یارک-ژوب منصوبوں میں جعلی دستاویزات اور مہر استعمال کرنے پر نااہل قرار پائی تھی، کو شندور-گلگت منصوبہ دے دیا گیا۔
مشہور خبریں۔
شام عرب لیگ میں اپنی نشست واپس نہیں لینا چاہتا: الجزائر
?️ 5 ستمبر 2022سچ خبریں: اتوار کی شام الجزائر کے وزیر خارجہ رمطان لعمامره نے
ستمبر
سعودی ولی عہد کے بیرون ملک اپنے مخالفین کو ختم کرنے کے لیے 24 ملین ڈالر مختص
?️ 15 اگست 2022سچ خبریں:خبر رساں ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی ولی عہد
اگست
گوگل کا کروم براؤزر کے لیے 3 نئے فیچرز متعارف کرانے کا اعلان
?️ 3 مارچ 2024سچ خبریں: گوگل کی جانب سے کروم ویب براؤزر میں 3 نئے
مارچ
صیہونی حکومت اور شام کے درمیان نیا فوجی سیکورٹی معاہدہ
?️ 9 جون 2025سچ خبریں: حیفا یونیورسٹی کے پروفیسر اماتزیہ برعم نے آج معاریو کے
جون
انسٹاگرام پر پرانے فیچر کی واپسی
?️ 11 فروری 2025سچ خبریں: شارٹ ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن انسٹاگرام پر نصف دہائی پرانے
فروری
سرینگر میں عاشورہ کے روایتی جلوس پر کئی دہائیوں سے جاری پابندی کی مذمت
?️ 7 جولائی 2025سرینگر: (سچ خبریں) غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرکے ضلع
جولائی
دشمن اپنے لیے فرضی کامیابیاں حاصل کرنا چاہتا ہے: حماس
?️ 19 فروری 2024سچ خبریں:حماس نے اعلان کیا ہے کہ اس تحریک کی قیادت اور
فروری
ایران کی نئی حکومت کے بارے میں اقوام متحدہ کا اہم اعلان
?️ 31 اگست 2021سچ خبریں:اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے ایران کے نئے صدر کو
اگست