پشاور: (سچ خبریں) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ہم عوام کو مشکل سے نکالنے کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ پشاور میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہماری انتخابی مہم سب سے پہلے شروع ہوئی تھی، میں اس صوبے میں 10 کنونشنز پہلے سے کر کے پنجاب اور سندھ سے ہوتے ہوئے واپس یہاں آیا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن تو قریب آگئے ہیں، پتا نہیں ان کا کیا ہوگا جو سردی کی وجہ سے الیکشن نہیں لڑنا چاہ رہے تھے؟ پتا نہیں ان کا کیا ہوگا جو نومبر کے انتخابات اور ضمنی انتخابات سے بھاگتے رہے مگر ہماری وجہ سے ان سب کو الیکشن لڑنا پڑ رہا ہے۔
مزید بتایا کہ ہم ڈرنے، گھبرانے اور بھاگنے والے نہیں، یہ سر کٹ تو سکتا ہے مگر جھک نہیں سکتا، ہم ذوالفقار بھٹو، بی بی شہید کی تعلیمات پر عمل کرنے والےہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم عوام کو مشکل سے نکالنے کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں، انہوں نے کہا ایک طرف معاشی بحران ہے تو دوسری طرف وہ دہشتگرد جن کو شکست دلوائی تھی وہ دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں۔
ان کا دعویٰ تھا کہ ہم معاشی انقلاب لے کر آئیں گے، پیپلزپارٹی کی حکومت میں ملازمین کی تنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ کیا گیا مزید بتایا کہ کسان کی فصل کو نقصان پہنچا تو وہ نقصان پورا کریں گے۔
سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ (ن) لیگ اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے نفرت اور تقسیم کی سیاست مسلط کی اگر ہماری حکومت بنی تو انتقامی سیاست نہیں کریں گے۔
رہنما پیپلز پارٹی نے بتایا کہ پیپلزپارٹی غریبوں کی جماعت ہے، پیپلزپارٹی واحد جماعت ہے جو غریبوں کا خیال رکھتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دو دو ڈگریوں والے نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا ہے ، وعدہ کیا کہ اگر ہماری حکومت بنی تو ہر ضلع میں یونیورسٹی بنائیں گے، تمام کچی آبادیوں کو ریگولرائز کریں گے، یونین کونسل کی سطح پر بھوک مٹاؤ مہم شروع کریں گے،۔
مزید کہا کہ نفرت اور تقسیم کی سیاست کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنا ہوگا، سیاست میں مکافات عمل ہوتے دیکھا ہے، جن سیاسی جماعتوں نے ماضی میں انتقامی سیاست کی وہ خود انتقام کا نشانہ بنے، جو کل بھٹو کی بیٹی کے ساتھ ظلم کرتے تھے ان کی اپنی بیٹی کےساتھ ظلم ہوا۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم نے بانی پی ٹی آئی کو نفرت کی سیاست نہ کرنے کا بار بار کہا، خان صاحب کو کہا کہ دوسروں کو چور نہ کہیں، وہ آج خود چور بن گئے، خان صاحب کو کہتے تھے انتقامی سیاست نہ کریں، خان صاحب کہتے تھے کسی کو این آر او نہیں دیں گے، اب کہتے ہیں کسی سے بھی بات کے لیے تیار ہوں، مسئلہ یہ ہے کہ کوئی اب اس سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں، ہم کہتے تھے اسمبلی سے استعفی نہ دو، قائد حزب اختلاف بن جاؤ لیکن انہوں نے اسمبلی بھی چھوڑ دی، سب کو جیل میں ڈالنے کی بات کرنے والا آج خود جیل میں ہے۔
انہوں نے دعوی کیا کہ حکومت بنی تو سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔