اسلام آباد:(سچ خبریں) وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سیلاب کے بعد گندم کی پیداوار طلب سے کم ہونے کا امکان ہے، حکومت نے صوبوں کے ساتھ مل کر گندم کے اعلیٰ معیار کے بیجوں کی تقسیم کا منصوبہ بنایا ہے لیکن پنجاب اور خیبرپختونخوا نے یہ پیشکش مسترد کردی ہے۔
نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈینیشن سینٹر میں جائزہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ سیلاب زدگان کے لیے آنے والی امداد کی تمام رقوم متاثرین تک پہنچائی جارہی ہیں اور اب تک 68 ارب روپے تقسیم کیے جاچکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دوست ممالک کی جانب سے آنے والی امداد بھی این ڈی ایم اے کے ذریعے چاروں صوبوں کے متاثرین میں تقسیم کی گئی، سردیوں کی آمد کے پیش نظر چین کی جانب سے ’وِنٹر ٹینٹس‘ بھیجے جارہے ہیں وہ بھی تقسیم کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب کے بعد گندم کی پیداوار طلب سے کم ہونے کا امکان ہے جس کو پورا کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، احسن اقبال اور طارق بشیر چیمہ نے صوبوں کے ساتھ یہ پلان بنایا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وفاق اور صوبے مل کر گندم کے اعلیٰ معیار کے بیج تقسیم کریں گے، 50 فیصد حصہ وفاق دے گا۔
وزیر اعظم نے بتایا کہ سندھ اور بلوچستان نے اس پیشکش پر فوری طور پر ہامی بھری لیکن خیبر پختونخوا اور پنجاب نے ہماری درخواست کے باوجود کہا کہ ہمیں بیج نہیں چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آج پھر میں اس اجلاس کے ذریعے خیبر پختونخوا اور پنجاب سے درخواست کروں گا کہ اس پیشکش کو قبول کریں، اس معاملے میں کوئی سیاست نہیں ہے، پاکستان سب کا سانجھا ملک ہے، یہ کوششیں ذاتی و سیاسی پسند ناپسند سے بالاتر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود اگر آپ کسی بھی وجوہات کی بنیاد پر یہ پیشکش قبول نہیں کرنا چاہتے تو یہ آپ کا اپنا فیصلہ ہے، وفاق کو ذمہ دار نہ ٹھہرائیے گا۔ شہباز شریف نے کہا کہ میں نے ایسی تباہی پہلے کبھی نہیں دیکھی، پہلے سیلاب کے سبب تباہی پھیلی پھر سیلاب سے جمع ہونے والے پانی سے بیماریں پیدا ہونے لگیں۔
انہوں نے کہا کہ کئی لاکھ ٹن گندم درآمد کی جاچکی ہے، خدشہ ہے کہ ضرورت کے مطابق ہدف پورا نہ کر سکیں گے، اس کے لیے بھی انتظام کیا گیا ہے، نجی سیکٹر کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ وفاقی حکومت گندم کی اجازت نہیں دے رہی، میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا کہ نجی سیکٹر اپنی مرضی کی قیمتوں پر گندم منگوالے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے سبب ذرمبادلہ کے مسائل کا سامنا ہے، ایسی صورتحال میں ہم ایک ڈالر بھی اضافی نہیں خرچ کر سکتے۔