گلگت (سچ خبریں) گلگت بلتستان کابینہ نے موسم سرما میں کے-2 کی چوٹی سرکرنے کی کوشش کے دوران جاں بحق ہونے والے کوہ پیما محمد علی سد پارہ کے لواحقین کو 30 لاکھ روپے دینے کی منظوری دینے کے ساتھ ساتھ لیے وفاق سے سول ایوارڈ کی سفارش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔کابینہ اجلاس علی سدپارہ کے قومی خدمات کے ایک نکاتی ایجنڈے پر منعقد ہوا۔
گلگت بلتستان کابینہ میں علی سد پارہ کی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کیا اور وفاق سے سول ایوارڈ کے لیے سفارش کا فیصلہ کیا۔کابینہ اجلاس میں مرحوم کے خاندان کو 30 لاکھ روپے دینے کی بھی منظوری دی گئی۔
علاوہ ازیں گلگت بلتستان کابینہ نے علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ کو محکمہ سیاحت میں ملازمت دینے کا اعلان کیا ہے۔کابینہ میں انسٹیوٹ آف اسپورٹس اینڈ ماؤنٹینرنگ کا نام علی سدپارہ سے منسوب کرنے کی منظوری بھی دیدی گئی۔
علاوہ ازیں کوہ پیما محمد علی سدپارہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے حوالے سے منعقدہ کابینہ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہا کہ محمد علی سدپارہ نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔
انہوں نے کہا کہ محمد علی سدپارہ کے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور کوہ پیمائی کو فروغ دینے اور کوہ پیماؤں کی فلاح وبہبود کے لیے پالیسیز بنائی جائیں گی۔
خالد خورشید نے کہا کہ محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد علی سدپارہ کو کوہ پیمائی میں بین الاقوامی سطح کی تربیت کرائی جائے گئیں جس کے بعد علی سدپارہ انسٹیٹیوٹ فار ایڈونچر سپورٹس، ماونٹئرنگ اینڈ راک کلائمبنگ میں کوہ پیمائی کی تربیت دے گا۔
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہا کہ کوہ پیمائی سے وابطہ ایسے تمام ہمارے گمنام ہیروز جنہوں نے محدود وسائل کے باوجود گلگت بلتستان کا نام روشن کیا ان سب کی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ 18 فروری کو موسم سرما میں کے-2 کی چوٹی سرکرنے کی کوشش کے دوران لاپتا ہونے والے کوہ پیماؤں محمد علی سد پارہ، جان اسنوری اور جان پابلو مہر کی موت کی سرکاری طور پر تصدیق کردی تھی۔
لاپتا کوہ پیماؤں کی موت کی تصدیق گلگت بلتستان کے وزیر سیاحت راجا ناصر علی خان نے محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ اور دیگر کوہ پیماؤں کے اہلِ خانہ کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں کیا تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ محمد علی سدپارہ اور دیگر کوہ پیماؤں کی لاش مل گئی ہے یا نہیں؟
یاد رہے کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما محمد علی سد پارہ، آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے جان پابلو موہر سے اس وقت رابطہ منقطع ہوگیا تھا جب انہوں نے 4 اور 5 فروری کی درمیانی شب بیس کیمپ تھری سے کے-ٹو کی چوٹی تک پہنچنے کے سفر کا آغاز کیا تھا۔
پاکستان کے محمد علی سدپارہ، چلی کے جان پابلو مہر اور آئس لینڈ کے جان اسنوری موسم سرما کے دوران کے-2 کی چوٹی سر کرنے کے مشن کے دوران 4 اور 5 فروری کی درمیانی شب لاپتا ہوگئے تھے۔
تینوں کوہ پیماؤں کو آخری مرتبہ کے-2 کے مشکل ترین مقام بوٹل نیک پر دیکھا گیا تھا، جس کے بعد سے موسم کی خراب صورتحال ان کی تلاش اور ریسکیو کی کوششوں میں مسلسل رکاوٹ بنی رہی۔
محمد علی سد پارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ بھی ‘بوٹل نیک’ (کے ٹو کا خطرناک ترین مقام) کے نام سے مشہور مقام تک ان تینوں کوہ پیماؤں کے ہمراہ تھے لیکن آکسیجن ریگولیٹر میں مسائل کے سبب کیمپ 3 پر واپس آئے تھے۔
تینوں کوہ پیماؤں کا 5 فروری کی رات کو بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہوا اور ان کی ٹیم کو جب ان کی جانب سے رپورٹ موصول ہونا بند ہوگئی تو 6 فروری کو وہ لاپتا قرار پائے تھے۔
بعدازاں کوہ پیماؤں کا سراغ لگانے کے لیے فضائی اور زمینی سطح پر متعدد کوششیں کی گئی جو کہ خراب موسم کے باعث ناکام ثابت ہوئیں۔
14 فروری کو تلاش کے مشن نے انکشاف کیا تھا کہ ایس اے آر ٹیکنالوجی کے استعمال، اسناد و اوقات کا جائزہ لینے اور سیٹیلائٹ تصاویر کا معائنہ کرنے کے بعد جو سراغ ملے تھے وہ ایک سلیپنگ بیگ، پھٹے ہوئے ٹینٹس یا سلیپنگ پیڈز نکلے اور ان میں سے کچھ بھی لاپتا کوہ پیماؤں سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔
یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے جان پابلو موہر موسمِ سرما میں کے-ٹو سر کرنے کی دوسری مہم کے دوران لاپتا ہوئے تھے۔
اس سے قبل 24 جنوری کو محمد علی سدپارہ، ساجد علی سدپارہ اور جان اسنوری نے کو کے -ٹو سر کرنے کی مہم کا آغاز کیا تھا لیکن 25 جنوری کی دوپہر کو 6 ہزار 831 میٹرز پر پہنچنے کے بعد موسم کی خراب صورتحال کی وجہ سے انہوں نے مہم چھوڑ کر بیس کیمپ کی جانب واپسی کا سفر شروع کیا تھا اور فروری میں دوبارہ کے-ٹو سر کرنے کی مہم کا اعلان کیا تھا۔