اسلام آباد(سچ خبریں) ملتان میں کاشت کاروں کے لیے کسان کارڈ کے اجرا کے لیے منعقدہ تقریب سے خطاب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کسان پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے اسے جتنا مضبوط کریں گے، اتنا ہم اپنے ملک کو مضبوط کریں گےوزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں زرعی پیداوار دگنی کی جاسکتی ہے اور اس کے لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ زرعی شعبے کی سربراہی میں خود کروں گا اور ہر ہفتے نئے اقدام کی تفصیلات ٹائم فریم کے ساتھ فراہم کروں گا۔
ملتان میں کاشت کاروں کے لیے کسان کارڈ کے اجرا کے لیے منعقدہ تقریب سے خطاب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کسان پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے اسے جتنا مضبوط کریں گے، اتنا ہم اپنے ملک کو مضبوط کریں گے۔
انہوں نے کہا ہے کہ آج ہم نے وہ قدم اٹھایا جو ثابت کرے گا کہ ہم جدید زراعت کی جانب جارہے ہیں، آج اجرا ہونے والا کسان کارڈ پاکستان کو تبدیل کردے گا، جیسے جیسے ٹیکنالوجی کی طرف جاتے رہیں گے کرپشن نیچے آتی رہے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ صرف ہمارے دور میں کسانوں کے لیے گندم کی امدادی قیمت میں 500 روپے کا اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں کسانوں کے پاس 500 ارب روپیہ آیا۔
انہوں نے کہا کہ کسانوں کو ملنے والی گندم، مونگی، مکئی اور دودھ کی قیمت سے کسانوں کے پاس اضافی 11 سو ارب روپے گئے ہیں، سب سے زیادہ غربت دیہاتوں میں ہے اور اس طرح ہم تخفیف غربت کے ہدف کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ 12 سو ارب روپے دیہاتی علاقوں میں جانے کا مقصد ہے کہ وہاں حالات بہتر ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ کسان کارڈ پر ایک ہزار کی ڈی ایل پی پر سبسڈی دی جائے گی جس میں کھاد اور کیڑے مار ادویات پر بھی سبسڈی ملے گی۔
انہوں نے بتایا کہ اس کسان کارڈ کے ذریعے ہم قرضے بھی دے سکیں گے اور جب قدرتی آفات کے سبب فصل تباہ ہوجاتی ہے تو ان کی بھی اس کارڈ کے ذریعے مدد کی جائے گی۔
وزیر اعظم نے بتایا کہ پانی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے پیداوار متاثر ہوتی ہے اس کے لیے 50 سال بعد 2 بڑے ڈیمز تعمیر کیے جارہے ہیں جن کی وجہ سے کسانوں کے لیے اضافی پانی آئے گا، اس کے علاوہ چھوٹے ڈیمز اور نہریں بھی بنائی جارہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے 30 ارب روپے کے ٹرانسفارمیشن پلان میں 200 ارب روپے صرف نہریں پکی کرنے کے لیے مختص ہیں، چین کے ساتھ بات کر کے زراعت کو سی پیک میں شامل کردیا ہے کیونکہ وہاں ہم سے کہیں زیادہ پیداوار حاصل کی جاتی ہے اس لیے ہم ان کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے بہترین زرعی تحقیقاتی ادارے جو توجہ نہ ملنے کی وجہ سے نیچے چلے گئے تھے ان کی تجدید کی جارہی ہے اور دال، تیل کے بیج، سویابین، اسپغول ہم اب پاکستان میں اگانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ انہیں ہم باہر سے درآمد کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان وہ خوش قسمت ملک ہے جہاں زیادہ تر علاقہ پیداوار کے لیے موافق درجہ حرارت یعنی 15 سے 38 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ہے، اس کا مطلب ہم کچھ بھی اگا سکتے ہیں، ہم اللہ کی نعمتوں کا بہت زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں کہ ہمیں کوئی چیز درآمد کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے کسان آج بھی وہی طریقہ کار استعمال کر رہے ہیں جو موئن جو دڑو میں 5 ہزار سال پہلے رائج تھے، نئی چیزیں نہیں سوچی گئیں اس لیے ایکسٹینشنل سروسز نجی اداروں کو دینے والے ہیں کیونکہ حکومتی ایکسٹینشن سروسز نے بالکل ڈیلیور نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس لیے نجی شعبے کو لے کر آئیں گے، ایکسٹینشنل سروسز کا مطلب یہ کہ ایک مقررہ فرد اپنے متعلقہ علاقے میں کسانوں کے پاس جا کر انہیں نئی تکنیکیں بتائے گا جس کی بہت ضرورت ہے، ہماری زراعت بنیادی سطح کی ہے، 96 سے 97 فیصد کسان چھوٹے کسان ہیں وہ اپنی ذات کے لیے پیداوار اگاتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ایکسٹینشنل سروس کے ذریعے انہیں تربیت دی جائے گی کہ وہ اپنی پیداوار بڑھا سکیں تاکہ اپنے لیے رکھنے کے علاوہ فروخت بھی کریں اور خوشحال ہوسکیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں ساتویں یا آٹھویں نمبر پر گائیں بھینسیں پاکستان میں ہیں لیکن ہم ابھی بھی دودھ درآمد کرتے ہیں کیونکہ ہماری پیداوار کم ہے اور ان مویشیوں کی نسلیں بہتر بنانے کے لیے 40 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس سے ایک سے 2 سال میں تبدیلی آجائے گی۔