اسلام آباد: (سچ خبریں)پاکستانی روپیہ آج (بدھ کو) مسلسل نویں سیشن میں ڈالر کے مقابلے میں گراوٹ کا شکار رہا اور انٹربینک مارکیٹ میں صبح کاروبار کے دوران اسکی قدر میں ڈالر کے مقابلے 2.08 روپے کی کمی واقع ہوئی۔
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایف اے پی) کے مطابق دوپہر 12 بجے مقامی کرنسی 234 روپے فی ڈالر پر ٹریڈ ہو رہی تھی، جو کل بند ہونے کی سطح سے 0.89 فیصد کم تھی۔
دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 238 روپے تک پہنچ گئی ہے۔
مالیاتی ڈیٹا اور تجزیاتی پورٹل میٹس گلوبل کے ڈائریکٹر سعد بن نصیر نے کہا کہ امریکا میں بلند افراط زر کی وجہ سے روپیہ گر گیا جس نے بین الاقوامی کرنسی منڈیوں میں ڈالر کو تقویت دی اور کرب مارکیٹ میں روپے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ 237 سے 239 کی سطح تک پہنچ گئی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ روپے کو سپورٹ ملنے کی توقع ہے کیونکہ اشیا کی قیمتوں میں کمی کا رجحان جاری ہے جو ستمبر کے مہینے کے کرنٹ اکاؤنٹ بل پر دباؤ کو کم کر دے گی۔
دوسری جانب فاریکس ایسوسی ایشن کے ملک بوستان نے کہا کہ ڈالر بڑھنے کی بہت سی وجوہات لیکن اس میں سب سے زیادہ بڑی وجہ سیلاب ہے تمام تجزیوں پر پانی پھیر دیا ورنہ اس سے قبل ڈالر کے نرخ گر رہے تھے روپیہ مستحکم ہورہا تھا، زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے تھے اور اشیا، گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی ہورہی تھی۔
ان کا کہنا تھا لیکن سیلاب نے تباہی مچادی جس کی وجہ سے پاکستان کا 40 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور حکومت نے کھانے پینے اور سیلاب زدگان کی بحالی کی اشیا مثلاً خیمے، دوائیاں وغیرہ سب کی درآمد ڈیوٹی فری کردی ہے جس کی وجہ سے امپورٹ بل بہت بڑھ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے روپے پر دباؤ ہے اور فری مارکیٹ میں بھی ڈالر کے ریٹ بڑھ رہے ہیں، اور دسمبر تک ڈیوٹی فری کی وجہ سے امپورٹ بل مزید بڑھے گا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ڈیوٹی فری ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ بہت اشیا بڑی تعداد میں اشیا منگا کر اسٹاک کررہے ہیں اور دسمبر میں ڈیوٹی فری ختم ہونے کے بعد من مانی قیمتوں پر فروخت کریں گے۔
ملک بوستان کا کہنا تھا کہ جب تک یہ اشیا ڈیوٹی فری آتی رہیں گی انٹربینک میں وقتی طور پر دباؤ جاری رہے گا جبکہ اوپن مارکیٹ پر بھی دباؤ زیادہ ہے جس کی وجہ یہ کہ حکومت ایران اور افغانستان سے اشیا خور و نوش منگا رہی ہے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان دونوں ممالک کے بینکوں پر امریکی پابندیاں عائد ہیں چنانچہ وہ ایل سیز ڈالر میں نہیں کھول سکتے جس کی وجہ سے وہاں کے برآمد کنندگان پاکستانی درآمد کنندگان نے نقد ڈالر میں ادائیگی کا مطالبہ کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نقد ڈالر نہ ایکسچینج کمپنی اور نہ ہی بینکس انہیں دے سکتے ہیں چنانچہ امپورٹر مجبوراً بلیک مارکیٹ سے رجوع کرتے ہیں جہاں من مانی قیمتوں پر ڈالر فروخت کیا جاتا ہے جس سے اس کی طلب بڑھ رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ حکومت نے آنے جانے والے مسافروں پر غیر ملکی کرنسی ڈکلیئر کرنے کی پابندی عائد کی ہے لیکن جن لوگوں کے پاس کریڈٹ کارڈز تھے وہ آمد پر کرنسی ڈکلیئر نہیں کررہے اور پھر بعد میں انٹربینک مارکیٹ سے ڈالر خرید رہے تھے جس کی وجہ سے ڈالر کے دو مختلف نرخ بتائے جارہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ متحدہ عرب امارات جانے والے مسافروں کے لیے 5 ہزار درہم رکھنے کی شرط بھی زر مبادلہ کی شرح پر دباؤ اس میں کردار ادا کر رہی ہے۔
ملک بوستان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں توقع تھی کہ عالمی مالیاتی فنڈ سے قسط ملنے کے بعد ڈالر 200 سے نیچے چلا جائے گا لیکن سیلاب نے ان تمام چیزوں پر پانی پھیر دیا ہے۔’
انہوں نے کہا کہ میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ ضرورت سے زیادہ ڈالر اپنے خاندان کو بھیجیں تا کہ غیر ملکی زرِ مبادلہ زیادہ ہے، 3 ارب ڈالر اگر وہاں سے مل جائیں اور برآمدات تھوڑی بڑھ جائے تو ہم بحران سے نکل آئیں گے۔
دوسری جانب ٹریسمارک میں ریسرچ کی سربراہ کومل منصور نے کہا کہ ‘دوست ممالک کے مالی امداد دینے سے پیچھے ہٹتے ہوئے خوف کا عالم ہے جبکہ بین الاقوامی بانڈز کی پیداوار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ سرمایہ کار دیوالیہ ہونے کے بڑھتے ہوئے خطرے پر غور کرنا شروع کر دیتے ہیں’۔
خیال رہے کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ 2 ستمبر سے مسلسل گر رہا ہے، گزشتہ ہفتے کے دوران یہ 9.2 روپے گر کر 228.18 روپے پر بند ہوا جبکہ 2 روز میں روپے کی قدر میں مزید 3.74 روپے کی کمی دیکھنے میں آئی۔