اسلام آباد: (سچ خبریں) وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے وفاقی کابینہ کی تین اہم کمیٹیوں کی تشکیل نو کردی جس میں چینی سرمایہ کاری پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے کابینہ کمیٹی برائے توانائی (سی سی او ای) بھی شامل ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کابینہ سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری کردہ الگ الگ نوٹی فکیشنز کے مطابق سی سی او ای کی سربراہی اب وزیر اعظم کے بجائے وزیر برائے توانائی اینڈ پیٹرولیم محمد علی کریں گے، کمیٹی اراکین کی تعداد بھی چیئرمین سمیت پانچ کر دی گئی ہے۔
پی ڈی ایم حکومت میں اراکین کی تعداد 8 تھی، کمیٹی میں جن 4 اراکین کو برقرار رکھا گیا ہے ان میں توانائی، خزانہ، منصوبہ بندی اور آبی وسائل کے وزرا شامل ہیں، پی ٹی آئی کے دور حکومت میں وزیر منصوبہ بندی سی سی او ای کی سربراہی کرتے تھے۔
بحری امور، بورڈ آف انویسٹمنٹ اور اسٹیٹ اینڈ فرنٹیئر ریجن کے وزرا جو وزیر اعظم کی سربراہی میں سی سی او ای کا حصہ ہوا کرتے تھے، اب ہٹا دیے گئے ہیں۔
دوسری جانب سرکاری ملازمین اور کابینہ کے جونیئر اراکین جو خصوصی دعوت ناموں کے ذریعے سی سی او ای میٹنگز میں باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے، ان کی تعداد بھی 10 سے کم کر کے اب 9 کر دی گئی ہے۔
اب وزرائے مملکت برائے توانائی، پیٹرولیم، خزانہ اور مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ کی جگہ وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ و اسٹیبلشمنٹ اور ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کو سی سی او ای اجلاسوں میں مدعو کیا جائے گا۔
ان کے علاوہ سیکریٹری خزانہ، توانائی، پیٹرولیم، قانون و انصاف اور اوگرا و نیپرا کے چیئرمین خصوصی دعوت پر اجلاس میں شریک ہوں گے۔
توانائی کے منصوبوں، پالیسیوں سے نمٹنے کے لیے سی سی او ای کے کے کردار اور دائرہ اختیار کو بھی برقرار رکھا گیا ہے، اس میں خاص طور پر پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت آنے والے منصوبوں اور مقررہ مدت کے اندر ان منصوبوں کی تکمیل پر زور دیا گیا ہے۔
اسی طرح کابینہ سیکریٹریٹ نے بھی گزشتہ حکومت میں 13 اراکین کے بجائے 9 رکنی کابینہ کمیٹی برائے چینی سرمایہ کاری کے منصوبوں (سی سی او سی آئی پی) کی تشکیل کا نوٹی فکیشن جاری کردیا، نگران وزیراعظم ذاتی طور پر اپنے پیشرو کی طرح کمیٹی کی سربراہی کریں گے۔
شہباز شریف کی زیر سربراہی کمیٹی کو 17 سے 20 رکنی کردیا گیا تھا، وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ، فنانس اور ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کو بھی اس کے اراکین کی فہرست میں شامل کرلیا گیا تھا، شہباز شریف نے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کو بھی خصوصی طور پر شامل ہونے والے شرکا کی فہرست میں شامل کیا تھا جنہیں اب نکال دیا گیا ہے۔