اسلام آباد: (سچ خبریں) وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پوری اتحادی حکومت نے موجودہ بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، کاش چیف جسٹس اس بات کا خیال کریں اور فل کورٹ تشکیل دیں تو وہ فیصلہ قوم کو تسلیم کرنے میں ذرا بھی دقت نہیں ہوگی۔
وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ بینچ سے فیصلہ کروانا انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ میں چند روز قبل اسمبلی میں تقریر کی، اس کے اگلے دن چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کئی لوگ جیلیں کاٹ کر اسمبلی میں تقریریں کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک مؤقف اور سوچ کے لیے جیل کاٹنے کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے، کرمنل کیسز میں انصاف پسند جج کے ہاتھوں کے جیل کاٹنا بہت تحقیر کی بات ہے، عمران نیازی کے پاس صرف ایک بات کی کہ اپوزیشن کے رہنماؤں کو جیلوں میں بجھوایا جائے۔
قبل ازیں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ ہی وہ ادارہ ہے جہاں ایک آمر 3 ماہ مانگنے گیا، اسے 3 سال بلکہ 9 سال دے دیے گئے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت جاری ہے جہاں وزیر قانون پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمے کے حوالے سے اظہار خیال کر رہے تھےجب کہ وزیراعظم شہباز شریف بھی ایوان زیریں میں موجود تھے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ فیصلہ سنانے کے 30 منٹ کے اندر اندر میں نے اُس وقت کے اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی صاحب نے یہ مؤقف اپنایا کہ یہ کیس 3 کے مقابلے میں 4اکثریتی ججز کی رائے سے خارج ہو گیا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 4 کے مقابلے میں 3 کے اکثریتی فیصلہ سامنے آنے کے بعد جب کیس کی سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تو ہم نے استدعا کی کہ فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اپنے ادارے میں اٹھنے والی اختلافی آوازوں کو بھی سننا چاہیے۔
وزیر قانون نے کہا کہ اٹارن جنرل پاکستان نے آج عدالت عظمیٰ کے سامنے اپنی معروضات پیش کیں، انہوں نے کوشش کی کہ ادارے کی تکریم، عزت اور تقدس کے لیے ایسا راستہ اختیار کیا جائے جو پوری قوم کے لیے قابل قبول ہو، تاکہ بعد میں ادارے پر انگلیاں نہ اٹھیں، ہمیں تاریخ کے جھرنکوں میں جھانکنا چاہیے، ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس مؤقر ادارے ترین کب کب آئین کی پامالی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کب کب یہ ادارہ ملک کی تقدیر لکھ سکتے تھے، انہوں نے اپنے قلم کے ساتھ سیاہ تحریریں لکھیں، یہ وہ ادارہ ہے جہاں ایک آمر 3 ماہ مانگنے گیا، اسے 3 سال بلکہ 9 سال دے دیے گئے، آج تاریخ لکھنے کا دن ہے، ادارے اپنے کردار اور اپنے طرز عمل سے اپنی عزت کرواتے ہیں، ادارے اپنے فیصلوں کی وجہ سے جانتے جاتے ہیں، جب ادارے کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں، جب ججز یہ بات کر رہے ہیں، ان آوازوں کو دبا کر، نظر انداز کرکے عجلت میں فیصلہ کیا جائے گا تو تاریخ اسے کالے صفحوں پر لکھے گی۔