پشاور:(سچ خبریں) پشاور ہائی کورٹ کے بنوں بینچ نے بغاوت کے مقدمے میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایم این اے علی وزیر کی ضمانت منظور کرلی۔
ایم این اے علی وزیر بغاوت کے مقدمات میں گرفتار ہونے کے بعد 31 دسمبر 2020 سے کراچی کی سینٹرل جیل میں قید ہیں۔ جس مقدمے میں علی وزیر کی ضمانت منظور کی گئی ہے وہ مقدمہ پولیس نے ان کے خلاف شمالی وزیرستان کے ضلع میرانشاہ میں عوامی جلسے کے دوران نفرت انگیز تقریر کرنے کے الزام میں درج کیا تھا۔
مقامی وکیل راشد خان دیرماخیل نے علی وزیر کی ضمانت کی درخواست پشاور ہائی کورٹ بنوں کے 2 رکنی بینچ کے سامنے دائر کی تھی۔
جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ خان اور جسٹس شاہد خان پر مشتمل بینچ نے ان کے وکیل اور ریاستی پراسیکیوٹر کے دلائل سنے اور نفرت انگیز تقاریر کیس میں علی وزیر کی درخواست ضمانت منظور کر لی۔
واضح رہے کہ رواں سال ستمبر میں بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے علی وزیر کے خلاف بغاوت کے ایک مقدمے میں ضمانت منظور کی تھی، ان کے وکیل قادر خان نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا تھا کہ ان کو رہا نہیں کیا جاسکا کیونکہ وہ فوری طور پر کراچی میں درج چاروں مقدمات میں ضمانت کی رقم کا بندوبست نہیں کرسکے، جو کل 19 لاکھ روپے بنتی ہے۔
جج نے ایم این اے کی ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی تھی، ان پر 2018 میں بوٹ بیسن تھانے میں لوگوں کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے اور بدنام کرنے کے الزام میں مقدمے درج کیا گیا تھا۔
ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو کراچی کے سہراب گوٹھ اور شاہ لطیف تھانوں میں درج بغاوت کے 3 دیگر مقدمات میں بھی بعد از گرفتاری ضمانت مل چکی ہے، کل ضمانت کی رقم 19 لاکھ روپے بنتی ہے۔
سپریم کورٹ نے نومبر 2021 میں سہراب گوٹھ تھانے کی حدود میں ایک ریلی میں اشتعال انگیز تقاریر کرنے کے خلاف پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین اور دیگر رہنماؤں کے خلاف درج کیے گئے ایک مقدمے میں علی وزیر کی ضمانت منظور کی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ نے 11 مئی 2022 کو شاہ فیصل ٹاؤن میں ریلی سے خطاب کے دوران ریاستی اداروں کے خلاف مبینہ اشتعال انگیز تقاریر کرنے کے الزام میں گرفتار پشتون تحفظ موومنٹ (پی ڈی ایم) کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی ضمانت منظور کی تھی۔
بعد ازاں، کراچی پولیس نے ریاستی اداروں کے خلاف مبینہ نفرت انگیز تقاریر پر پی ٹی ایم رہنماؤں کے خلاف شاہ لطیف ٹاؤن پولیس اسٹیشن میں درج تیسرے مقدمے میں گرفتار کیا تھا۔
جولائی 2022 میں کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے خیبرپختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان سے منتخب گرفتار رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو ریاستی اداروں کو بدنام کرنے اور عوام کو اکسانے کے خلاف تیسرے مقدمے میں بھی ضمانت منظور کر لی تھی۔
باقی تین مقدمات پشتین اور دیگر رہنماؤں کے خلاف درج کیے گئے، جن میں رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ، نور اللہ ترین، احسن اللہ، جاوید رحیم، محمد شیر خان، ابراہیم، محمد طاہر عرف قاضی طاہر، شیر ایوب، بصیر اللہ، محمد سرور اور محمد اللہ شامل ہیں۔
ملزمان کے خلاف ریاستی مدعیت میں دفعہ 124۔ اے (بغاوت)، دفعہ 125، دفعہ 147 (ہنگامہ آرائی)، دفعہ 149 (غیر قانونی اسمبلی کا ہر رکن عام اعتراض کی کارروائی میں جرم کا مرتکب)، دفعہ 153 (ارادی طور پر اشتعال دلانا، فسادات کا سبب بننا)،دفعہ 153۔اے ( مختلف گروپوں کے درمیان دشمن کو فروغ دینا)، دفعہ 500 (ہتک عزت)، دفعہ 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والا بیان) اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 506 (مجرمانہ دھمکی) کے ساتھ ریاست کی جانب سے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 (دہشت گردی کی کارروائیوں کی سزا) کے تحت درج کیے گئے۔