اسلام آباد:(سچ خبریں) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے گزشتہ ایک دہائی سے عدالت عظمیٰ کا آڈٹ نہ کرانے پر رجسٹرار سپریم کورٹ کو طلب کر لیا۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا جب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹس دیکھنے کا مطالبہ کیا ہو، چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان نے حیرانگی کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آڈیٹر جنرل پاکستان کو گزشتہ 10 برسوں سے اپنے اکاؤنٹس تک رسائی سے کیوں انکار کیا جارہا ہے۔
نور عالم خان نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو عیدالفطر کی تعطیلات کے بعد طلب کر لیا، گزشتہ ماہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سپریم کورٹ کے ججوں کی تنخواہوں اور دیگر مراعات کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے چیئرمین کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نورالامین مینگل سے ججوں، جرنیلوں، وزرائے اعظم، ارکان پارلیمنٹ، کابینہ کے ارکان اور بیوروکریٹس کو دیے گئے پلاٹوں کی تفصیلات پیش نہ کرنے پر بھی برہمی کا اظہار کیا، تاہم نورالامین مینگل نے 293 بیوروکریٹس کی فہرست فراہم کی جنہیں پی ایچ اے فاؤنڈیشن میں پلاٹ دیے گئے تھے۔
علاوہ ازیں انہوں نے ون کانسٹی ٹیوشن ایونیو کے رہائشیوں کی منی ٹریل کی تفصیلات بھی طلب کیں، نور عالم خان نے کہا کہ ’ہم جاننا چاہتے ہیں کہ اصل الاٹی کون تھے، اب مالکان کون ہیں، ان کے خاندان کے افراد نے ایسی اہم جائیدادیں خریدنے کے لیے رقم کہاں سے حاصل کی‘۔
انہوں نے ایف آئی اے میں ایسے افسران کی منی ٹریل بھی مانگی جو ایجنسی کے ساتھ 3 سال سے زائد عرصے سے کام کر رہے تھے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سیکریٹری (ہاؤسنگ اینڈ ورکس) افتخار علی شلوانی کو فیڈرل لاجز (اسلام آباد) میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو بے دخل کرنے کی ہدایت کردی۔
فیڈرل لاجز دوسرے شہروں سے اسلام آباد میں تعینات ہونے والے 17 سے 18 گریڈ کے سرکاری افسران کے لیے ہیں، افسران کو فیڈرل لاجز میں ڈیڑھ سال تک رہائش رکھنے کا حق حاصل ہے۔
تاہم ہاؤسنگ اینڈ ورکس نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا کہ زیادہ تر مکین فیڈرل لاجز میں کئی برسوں سے رہ رہے ہیں۔
افتخار علی شلوانی نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا کہ ’ان میں سے تقریباً 150 لوگوں نے حکومت کی جانب سے انہیں بے دخل کرنے کی کوششوں کے خلاف حکم امتناع حاصل کر رکھا ہے‘۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ عدالتوںکی جانب سے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان کوارٹرز میں مقیم افراد کو حکم امتناع دینا غلط تھا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے اربوں روپے کے آڈٹ پیراز میں مالی بے ضابطگیوں پر برہمی کا اظہار کیا اور زیادہ تر مقدمات انکوائری کے لیے ایف آئی اے کے حوالے کر دیے، کچھ کیسز میں نور عالم خان نے سکریٹری (آئی پی سی) کو انکوائری کرنے اور دیگر کیسز میں اس حوالے سے ذمہ داریاں مختص کرنے کی ہدایت کردی۔