اسلام آباد:(سچ خبریں) پاکستان نے اکھنڈ بھارت کے نظریے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، جسے حکمراں بھارتی حکومت کی طرف سے تیزی سے پیش کیا جا رہا ہے۔
ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے نئی دہلی میں پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں (میورل) دیوار کی تنصیب پر افسوس کا اظہار کیا۔
ممتاز زہرہ بلوچ کا کہنا تھا کہ دیوار میں نام نہاد ’قدیم بھارت‘ کو دکھایا گیا ہے جس میں وہ علاقے بھی شامل ہیں جو اب پاکستان اور دیگر ممالک کے حصے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے متعدد سیاست دانوں کے بیانات پر حیران ہیں جن میں مرکزی وزیر بھی شامل ہیں، دیوار کو اکھنڈ بھارت سے جوڑ رہے ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ اکھنڈ بھارت کا بے جا دعویٰ ایک نظرثانی اور توسیع پسندانہ ذہنیت کا مظہر ہے جو نہ صرف بھارت کے ہمسایہ ممالک بلکہ اس کی اپنی مذہبی اقلیتوں کی شناخت اور ثقافت کو بھی مسخر کرنا چاہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تشویشناک بات ہے کہ بھارت میں حکمراں طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے ذریعے اکھنڈ بھارت کے خیال کو تیزی سے پیش کیا جا رہا ہے، بھارتی سیاستدانوں کو مشورہ ہے کہ وہ متعصبانہ سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے دوسرے ممالک کے خلاف بیان بازی میں ملوث نہ ہوں، انہوں نے کہا کہ تسلط پسندانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کو پروان چڑھانے کے بجائے، بھارت کو ایک پرامن اور خوشحال جنوبی ایشیا کے لیے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تنازعات کو حل کرنا چاہیے۔
پاکستان نے بھارت کی جانب سے عدالت سے ممتاز کشمیری رہنما یسٰین ملک کو سزائے موت دینے کے مطالبہ کے تازہ ترین اقدام پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے بتایا کہ گزشتہ برس محمد یسٰین ملک کو ایک متنازع مقدمے میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، ان پر من گھڑت الزامات عائد کیے گئے اور انہیں منصفانہ ٹرائل سے انکار کیا گیا تھا۔
ترجمان نے کہا کہ سرکردہ کشمیری رہنما کو بگڑتی ہوئی صحت کے باوجود بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں غیر انسانی حالات میں رکھا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یسین ملک کو خاندان کے افراد اور وکلا تک رسائی نہیں دی جارہی، اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں معیاری صحت کے علاج سے محروم رکھا جارہا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کا تازہ ترین اقدام سیاسی انتقام کی ایک اور مثال ہے جس کا مقصد کشمیری قیادت کو خاموش کرنا اور کشمیری عوام کو ڈرانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اقدام بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر تسلط جموں و کشمیر میں بھارت کے نہ ختم ہونے والے اور وسیع جبر کا مظہر ہے جہاں سیاسی رہنماؤں اور انسانی حقوق کے محافظوں کو من گھڑت اور بے بنیاد الزامات کے تحت قید کیا جاتا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم بھارتی حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ یسین ملک کے خلاف فرضی مقدمے کو ختم کریں۔
انہوں نے کہا کہ کشمیری رہنما کو معیاری علاج فراہم کیا جانا چاہیے اور انہیں اپنے لوگوں اور خاندان کے درمیان آزادانہ طور پر رہنے دیا جانا چاہیے۔
ترجمان نے پاکستان کے اس مطالبہ کو بھی دہرایا کہ بھارت کو کشمیری قیادت اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو بھی فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کرنا چاہیے، جنہیں بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر تسلط جموں و کشمیر اور بھارت کی جیلوں میں بلا جواز قید میں رکھا گیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماضی قریب میں پاکستان نے کچھ بھارتی ماہی گیروں اور شہریوں کو رہا کیا جنہوں نے اپنی سزا پوری کر لی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں اسی طرح کے ایک اور گروپ کو بھی رہا کیا جاسکتا ہے، بھارتی ماہی گیروں اور شہریوں کی رہائی پاکستان کی انسانی ہمدردی کے معاملات پر سیاست نہ کرنے کی مستقل پالیسی کو ظاہر کرتی ہے، ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ بھارت بھی اسی طرح کے انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرے گا اور پاکستانی شہریوں اور ماہی گیروں کو بھی رہا کرے گا۔
ممتاز زہرہ بلوچ نے بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے، وہ کمیشن یقینی طور پر موجود ہے اور اس طرح کے دوروں کے میکانکس پر دونوں فریقین رابطے میں رہے ہیں جس سے ہمیں امید ہے کہ پاکستان اور بھارت کی جیلوں میں قید عام شہریوں اور ماہی گیروں کو سہولت ملے گی۔
وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر 5 سے 13 جون تک ناروے، سویڈن، ڈنمارک اور بیلجیم کا سرکاری دورے کریں گی۔
دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کو یہاں پریس بریفنگ میں کہا کہ وزیر مملکت ترقی، تجارت اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز اور مسئلہ کے بارے میں تعاون پر تبادلہ خیال کے لیے وزارتی سطح پر اجلاسوں میں شرکت کریں گی۔
وہ قانون سازوں اور مقامی تاجروں سے بھی ملاقات کریں گی۔ حنا ربانی کھر بیلجیم میں یورپی پارلیمنٹ کے اراکین اور یورپی کمیشن کے سینئر حکام سے ملاقاتیں کریں گی۔ سویڈن میں، وزیر مملکت یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کے سالانہ اجلاس میں کلیدی مقرر کے طور پر شرکت کریں گے۔
وہ علاقائی اور عالمی اہمیت کے مسائل پر پاکستان کا نقطہ نظر پیش کریں گی اور خارجہ پالیسی کی ترجیحات اور چیلنجز پر بحث کے لیے یورپ کے سرکردہ فیصلہ سازوں، ماہرین، تھنک ٹینکس اور اثرورسوخ رکھنے والی شخصیات کے ساتھ بات چیت کریں گی۔