اسلام آباد: (سچ خبریں) وزیر اعظم شہباز شریف نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ آئی ایم ایف بورڈ کے 12 جولائی کو ہونے والے اجلاس میں ملک کے لیے 3 ارب ڈالر کے قلیل مدتی بیل آؤٹ کی حتمی منظوری دے دی جائے گی اور قرض دینے والے سے کیے گئے تمام وعدوں کو پورا کرنے کا عزم بھی کیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام آباد میں پاک۔چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کی مفاہمتی یادداشت پر دستخطوں کے 10 سال مکمل ہونے کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ عملے کی سطح کے معاہدے کو پہلے ہی حتمی شکل دی جاچکی ہے۔
خیال رہے کہ تقریباً 8 ماہ کی بات چیت کے بعد فریقین نے جمعہ کو عملے کی سطح کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
اس حوالے سے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا تھا کہ پاکستان کو ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی پہلی قسط ملے گی لیکن فنڈز دینے سے پہلے آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری درکار ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ’ان شا اللہ معاہدہ منظور ہو جائے گا‘ اور وہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا اور ان کی ٹیم کے مشکور ہیں، ساتھ ہی کہا کہ یہ پاکستان کے لیے ترقی کی جانب بڑھنے کا موقع ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ حکومت، آئی ایم ایف کا نیا پروگرام مقررہ مدت میں مکمل کرے گی، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے معاشی حالات کو بحال کرے اور اسے ’اپنے پیروں پر کھڑا ہونے‘ میں مدد فراہم کرے۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ پاکستان اب ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار نہیں ہے۔
وزیراعظم نے بھارت سے کہا ہے کہ پاک۔چین اقتصادی راہداری منصوبے میں وہ رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے اس میگا پروجیکٹ سے فائدہ اٹھائے۔
انہوں نے منصوبے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ایران، افغانستان، مشرق وسطیٰ اور پورا خطہ بھی اس سے مستفید ہوگا۔
شہباز شریف نے ترقی کی رفتار کو دگنا کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہ صرف سڑکوں، ریل، بندرگاہوں اور فضائی راستوں کو بہتر بنانے کے لیے ہے بلکہ اس سے صحت، تعلیم اور ہنرمندی کی ترقی کے شعبوں میں بھی مدد ملے گی، اس کے علاوہ اس عمل میں عوام کی شرکت بھی ہوگی۔
بعد ازاں ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ سی پیک، پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، ہمیں اس منصوبے کی صلاحیتوں سے پوری طرح مستفید ہونے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 10 سال کی ایک متاثر کن کہانی ہے کہ میرے قائد نواز شریف کے قائدانہ کردار کی بدولت کس طرح صدر شی جن پنگ کا ’آہنی بھائی چارے‘ کا وژن سی پیک فریم ورک کے تحت منصوبوں کی تکمیل میں تبدیل ہو۔
وزیراعظم شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ میں گواہ ہوں کہ کس طرح انہوں نے توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں منصوبے کے نفاذ کی نگرانی کی، تفصیلات کو بہتر بنانے، پیش رفت کا جائزہ لینے اور ٹائم لائنز کو یقینی بنانے پر گھنٹوں صرف کیے۔
دریں اثنا وزارت خزانہ نے ایک بیان میں کہا کہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے ملاقات کی اور انہیں آئی ایم ایف کے ساتھ عملے کی سطح کے معاہدے کے بارے میں آگاہ کیا۔
فنڈ کے ساتھ معاہدے کو حتمی شکل دینے سے پہلے بھی دونوں کے درمیان دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مالیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کئی ملاقاتیں ہوئی تھیں اور پاکستان نے آئی ایم ایف کے رکے ہوئے پروگرام کو بحال کرنے کے لیے واشنگٹن سے تعاون طلب کیا تھا۔
اسحٰق ڈار نے امریکا کی حمایت اور تعاون کو سراہا اور امریکا کے ساتھ دوطرفہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مزید گہرا کرنے کی حکومت کی خواہش کا اعادہ کیا، تاہم وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کے ساتھ نئے معاہدے کو حاصل کرنے میں حمایت کا خاص طور پر ذکر نہیں کیا۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ ڈونلڈ بلوم نے ملک میں معاشی استحکام لانے کے لیے حکومت کی پالیسیوں اور پروگراموں پر اعتماد کا اظہار اور دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ اقتصادی، سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لیے اپنی حمایت کا بھی اظہار کیا۔
علاوہ ازیں وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بھی آئی ایم ایف کے نئے پیکج پر اطمینان کا اظہار کیا لیکن اس بات پر زور دیا کہ اس معاہدے کو دیرپا حل کے بجائے عارضی ریلیف اور محض سانس لینے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
وزارت منصوبہ بندی کے زیر اہتمام ٹوئٹر اسپیس ’بیونڈ آئی ایم ایف معاہدے: پاکستان کے لیے چیلنجز اور مواقع‘ کے دوران احسن اقبال نے نشاندہی کی کہ قرض کا معاہدہ 2022 میں ادائیگیوں کے توازن کے شدید بحران کی وجہ سے ضروری تھا، جس کی وجہ ان کے بقول پچھلی حکومت کی ناقص پالیسیاں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ 84 ارب ڈالر کی درآمدات کی اجازت دینے کے بعد ملک کو 50 ارب ڈالر کے بدترین خسارے کا سامنا کرنا پڑا، ساتھ ہی صرف ڈیل کا جشن منانے کے بجائے ملک کے لیے خود شناسی اور ترقی کو آگے بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا۔
وزیر منصوبہ بندی نے آئی ایم ایف کے قلیل مدتی مالیاتی پیکج کو انتہائی ضروری مہلت قرار دیا جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا، تاہم انہوں نے طویل مدتی پائیداری کو یقینی بنانے اور اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے ساختی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے ملک کو پائیدار راہ پر گامزن کرنے اور طویل مدت کے لیے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے نفاذ کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ چاہے کوئی بھی حکومت اقتدار میں ہو ان پالیسیوں کو برقرار رکھا جانا چاہیے۔
احسن اقبال سی پیک کی 10 سالہ تقریبات کے موقع پر 11 جولائی کو بیجنگ میں منعقد ہونے والے بارہویں مشترکہ تعاون کمیٹی (جے سی سی) کے اجلاس میں شرکت کے لیے ہفتہ کو چین کے چار روزہ سرکاری دورے پر روانہ ہوں گے۔
دورہ بیجنگ کے دوران وفاقی وزیر پاک۔چین تعلقات کی اہمیت اور ان کی اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کو اجاگر کریں گے اور اہم چینی حکام سے ملاقاتیں کریں گے جن میں چین کے قومی ترقی اور اصلاحاتی کمیشن کے افسران بھی شامل ہیں۔