اسلام آباد:(سچ خبریں) اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتیوں کے حوالے سے قائم پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس شاہد وحید اور جسٹس حسن اظہر رضوی کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی منظوری دے دی۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی سربراہی میں 8 رکنی پینل نے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد وحید اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس حسن اظہر رضوی کو ترقی دینے کے لیے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی سفارشات کا جائزہ لیا۔
کمیٹی نے 4 نومبر کو جسٹس اطہر من اللہ کو سپریم کورٹ اور جسٹس عامر فاروق کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر ترقی دینے کے لیے جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کی منظوری دی تھی، تاہم 10 نومبر کو طے شدہ اجلاس میں جسٹس شاہد وحید اور جسٹس حسن رضوی کے ناموں پر غور کو مؤخر کر دیا تھا۔
اس سے قبل 2 نومبر کو کمیٹی نے 10 نومبر کو ان ناموں پر غور کرنے کا فیصلہ کیا تھا، تاہم 4 نومبر کو شیڈول کے بغیر منعقدہ ایک اجلاس میں کمیٹی نے جسٹس اطہر من اللہ کی ترقی کی منظوری دی اور گزشتہ روز شیڈول کے بغیر منعقدہ ایک اور اجلاس میں جسٹس شاہد وحید اور جسٹس حسن رضوی کے ناموں کی منظوری دے دی گئی۔
24 اکتوبر کو جوڈیشل کمیشن نے ساڑھے 3 گھنٹے طویل اجلاس کے بعد متفقہ طور پر جسٹس اطہر من اللہ کی ترقی کی منظوری دی تھی جبکہ جسٹس شاہد وحید اور جسٹس حسن رضوی کے ناموں پر 5 میں سے 4 ووٹوں کی اکثریت کے ساتھ منقسم منظوری دی گئی تھی، دونوں اپنی اپنی متعلقہ عدالتوں کی سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر ہیں، علاوہ ازیں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد شفیع صدیقی کے نام کی تجویز کو یکسر مسترد کردیا گیا۔
دریں اثنا سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے جسٹس اطہر من اللہ کی سپریم کورٹ میں ترقی اور جسٹس عامر فاروق کی بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہوئی کورٹ تعیناتی کا خیرمقدم کیا۔
ایک بیان میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا کہ عدالت میں ترقی اس وقت تک سنیارٹی کی بنیاد پر کی جانی چاہیے جب تک میرٹ پر ترقی کے لیے کوئی معروضی معیار طے نہیں کیا جاتا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پارلیمانی کمیٹی کی کارروائی پر تشویش کا اظہار کیا جس کے تحت 4 نومبر کو جسٹس شاہد وحید اور جسٹس حسن رضوی کی مجوزہ ترقی کو مزید غور کے لیے مؤخر کر دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پارلیمانی کمیٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ آئین کے آرٹیکل اے-175 کے تحت سنیارٹی کے اصول پر عمل پیرا ہوں جوکہ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی سے متعلق ہے۔