اسلام آباد:(سچ خبریں) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے سیاسی حریف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف بھرپور کارروائی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ وہ دہشت گرد ہے۔
لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان کے خلاف بھرپور کارروائی کی حمایت کی۔
انہوں نے کہا کہ ’ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ ایک فراڈ ہے لیکن ہمیں معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک دہشت گرد ہے اور یہ کوئی معمولی دہشت گردی نہیں ہے‘۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی سیاست میں اس طرح کا بڑا فراڈ اور دہشت گرد کبھی نہیں دیکھا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پیٹرول بم کیوں استعمال ہوئے، اس لیے کہ پولیس والے جل کر جاں بحق ہوں، اس کو یہ کس نے سکھایا ہے، یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت اس طرح کا رویہ اختیار کر رہی ہے‘۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ’یہ ناقابل قبول ہے، ان کے خلاف مکمل کارروائی ہونی چاہیے‘۔
دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اسلام میں پریس کانفرنس کہا کہ جوڈیشل کمپلیکس اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں توڑ پھوڑ اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے مقدمات پر نامزد ملزموں کے خلاف کارروائی ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ اور غیر ملکی فنڈنگ سمیت دیگر مقدمات درج ہیں، انہیں عدالتوں کا سامنا کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ وہ 28 فروری کو جتھوں کے ساتھ آئے اور اس جتھے نے جوڈیشل کمپلیکس پر حملہ کیا، یہ لوگ طاقت کے زور پر مین گیٹ توڑ کر کمپلیکس میں داخل ہوئے اور توڑ پھوڑ کی۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ کارکنوں نے سی سی ٹی وی کیمرے توڑے، غنڈہ گردی اور انارکی کا ایسا ماحول پیدا کیا کہ عدالت قانون کے مطابق کیس کی کارروائی نہ کر سکے، اس پر دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت تھانہ رمنا اسلام آباد میں مقدمہ درج کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران نیازی اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ آئے اور اسی طرح یہاں بھی جتھے کے ساتھ گیٹ توڑا اور کورٹ روم تک چیزوں کو نقصان پہنچایا، سیکیورٹی پر مامور وردی میں ملبوس پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا، جس کے بعد سی ٹی ڈی اور گولڑہ تھانہ میں دو الگا، الگ مقدمات درج کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ 18مارچ کو عمران خان ایک بار پھر عدالت میں پیش ہونے کے لیے آئے اس وقت بھی ان کے ساتھ مسلح جتھہ تھا جو ہتھیاروں کے علاوہ ڈنڈوں اور پتھروں کا ذخیرہ بھی ساتھ لے کر آیا تھا، وہاں سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا گیا، ملازمین کے موٹر سائیکل اور گاڑیاں جلائی گئیں، ایک بار پھر جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہونے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام رہے تاہم پولیس کو زخمی کیا، اس پر بھی ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ان مقدمات پر کارروائی کرتے ہوئے شرپسند عناصر جنہوں نے سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا جو ہتھیار لے کر آئے، جلاؤ گھیراؤ کیا، عمران خان نیازی سمیت تمام ملزمان اس پر گرفتاری کے مستحق ہیں اور ان پر دہشت گردی کا مقدمہ چلایا جائے اور یہ اپنے انجام کو پہنچیں۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ اس حوالے سے جے آئی ٹی بنائی گئی ہے جو ان چاروں کیسز کی سماعت کرے گی اور 14 دنوں کے اندر اپنی تفتیش مکمل کرے گی۔
اس سے قبل پی ٹی آئی نے اپنے رہنماؤں اور کارکنوں پر ’ریاست پاکستان‘ کی جانب سے مبینہ زیر حراست تشدد کے خلاف اقوام متحدہ سے رجوع کرلیا۔
پی ٹی آئی کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری نے ایک خط کے ذریعے اقوام متحدہ خصوصی نمائندہ برائے تشدد اور دیگر وحشیانہ تشدد ڈاکٹر ایلس جل ایڈورڈز سے رابطہ کرلیا۔
انہوں نے اقوام متحدہ کو لکھا کہ ’گزشتہ 11 ماہ کے دوران ہم نے بدترین زیر حراست تشدد اور انسانی حقوق کی دیگر سنگین خلاف ورزیاں دیکھی ہیں جو خاص طور پر اظہار آزادی اور پرامن اجتماع کا حق استعمال کرنے والے غیرمسلح افراد، خواتین اور یہاں تک کہ بچوں کے خلاف اغوا، گھروں میں ہراساں کرنا اور آنسو گیس کا مسلسل استعمال، کیننز میں کیمیکل کا پانی اور ربر کی گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔
شیریں مزاری نے لکھا کہ تازہ مثال پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنوں کے خلاف ابتدائی طور پر لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں پولیس، رینجرز کی جانب سے اغوا، زیر حراست تشدد ہے جو بعد میں پورے ملک میں پھیل گیا۔
انہوں نے کہا کہ لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ پر کارکنوں کو ہٹانے کے لیے حملہ کیا گیا جو عمران خان کے ممکنہ قتل کے منصوبے کے خلاف ان کا دفاع کرنے کے لیے آئے ہوئے تھے کیونکہ ان کے قتل کا ایک منصوبہ نومبر 2022 میں ناکام ہوچکا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ 8 مارچ سے 18 مارچ تک پولیس اور رینجرز نے زمان پارک کے علاقے کو میدان جنگ میں تبدیل کیا، ایک کارکن کو حراست میں لینے کے بعد قتل کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مقتول کارکن کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سوشل میڈیا پر جاری کی گئی تھی، جس میں ظاہر ہوا کہ ان کی موت حراست کے دوران ہوئی اور اس کے بعد ان کی لاش پھیبنک دی گئی۔
شیریں مزاری نے کہا کہ ’18 مارچ کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتےہوئے پنجاب پولیس اور رینجرز کی بھارت نفری نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے گھر کا دروازہ توڑا اور ان کے گھر میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی اہلیہ جو ایک غیرسیاسی خاتون ہیں گھر میں اس وقت اکیلی تھیں۔