اسلام آباد(سچ خبریں) وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ جب مقبوضہ کشمیر کے عوام کو نظرانداز کیا جارہا تھا تو مغربی دنیا میں یہ اتنا بڑا مسئلہ کیوں تھا؟ یہ کہیں زیادہ متعلقہ ہے، ایغوروں کے ساتھ شاید جو کچھ ہورہا ہو اس کے مقابلے ایک لاکھ کشمیری جاں بحق ہوچکے ہیں، مقبوضہ وادی ایک ‘کھلی جیل’ میں تبدیل ہوچکی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ‘یہ مسئلہ کیوں نہیں ہے؟ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ اسے ‘منافقت’ سمجھتے ہیں۔یہ بات انہوں نے ایچ بی او پر ایکسیئز پروگرام میں صحافی جوناتھن سوان کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔
سوال پوچھا گیا کہ انٹیلیجنس تجزیہ کار کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار سب سے تیزی سے بڑھ رہے ہیں، ایسا کیوں؟
جس کے جواب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ‘مجھے نہیں معلوم کہ وہ یہ بات کہاں سے لے آئے، پاکستان کے جوہری ہتھیار دفاعی ہیں تا کہ ہم اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں میرا نہیں خیال کہ یہ بڑھ رہے ہیں’۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ ‘جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ جارحانہ چیز نہیں، کوئی بھی ملک جس کا پڑوسی اس سے 7 گنا زیادہ بڑا ہو وہ پریشان ہوگا’۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ‘جوہری ہتھیاروں کے مکمل خلاف تھے اور ہمیشہ سے رہے ہیں، ہم نے بھارت کے ساتھ 3 جنگیں لڑیں اور جب سے ہمارے پاس جوہری دفاع آیا دونوں ممالک کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی، ہمارے ہاں سرحدی جھڑپیں ہوئیں لیکن جنگ کا سامنا نہیں کرنا پڑا’۔
انہوں نے مزید کہا کہ جس وقت کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے گا دونوں ہمسایے مہذب لوگوں کی طرح رہنے لگیں گے ہمیں جوہری ہتھیار رکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
وزیراعظم سے سوال پوچھا گیا کہ وہ کیوں مغرب میں اسلاموفوبیا کے حوالے سے خاصہ بڑھ چڑھ کر بات کرتے ہیں لیکن چین میں ایغور مسلمانوں کی نسل کشی پر خاموش ہیں؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ تمام معاملات پر ‘بند دروازوں کے پیچھے’ بات چیت ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چین سب سے مشکل وقت میں ہمارے سب سے بہترین دوستوں میں سے ایک رہا ہے، جب ہم واقعی مشکلات کا شکار تھے چین ہماری مدد کو آیا، وہ جیسے ہیں ہم ان کا احترام کرتے ہیں اور ہمارا جو بھی مسئلہ ہو اس پر بند دروازوں کے پیچھے بات کرتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ‘میں دنیا میں دیکھتا ہوں کہ فلسطین، لیبیا، صومالیہ، شام اور افغانستان میں کیا ہورہا ہے تو کیا میں ہر چیز کے بارے میں بات کرنا شروع کردوں؟ میں اپنی سرحد پر اور اپنے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اس پر توجہ رکھتا ہوں۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ جب مقبوضہ کشمیر کے عوام کو نظرانداز کیا جارہا تھا تو مغربی دنیا میں یہ اتنا بڑا مسئلہ کیوں تھا؟ یہ کہیں زیادہ متعلقہ ہے، ایغوروں کے ساتھ شاید جو کچھ ہورہا ہو اس کے مقابلے ایک لاکھ کشمیری جاں بحق ہوچکے ہیں، مقبوضہ وادی ایک ‘کھلی جیل’ میں تبدیل ہوچکی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ‘یہ مسئلہ کیوں نہیں ہے؟ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ اسے ‘منافقت’ سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ ان چیزوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں جن سے ملک اور اس کی سرحدوں کا تعلق ہے، ایک لاکھ کشمیریوں کا مرنا میرے لیے زیادہ تشویش کا باعث ہے کیوں آدھا کشمیر پاکستان میں ہے۔
مسلم ریاستوں کے رہنماؤں کو اسلاموفوبیا کے خلاف متحد ہونے کے لیے ارسال کردہ خط کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اسلامی دنیا اور مغربی معاشروں کے درمیان رابطوں کا بڑا فقدان ہے، یہ 9/11 کے بعد ہوا جب ‘اسلامی’ دہشت گردی کا لفظ استعمال میں آیا۔
انہوں نے کہا کہ جس لمحے آپ اسلامی دہشت گردی کہتے ہیں، مغرب کا عام آدمی سمجھتا ہے کہ ایسا کچھ مذہب میں ہے جو دہشت گردی کا باعث بنتا ہے، 9/11 کے بعد جب کہیں کسی دہشت گرد حملے میں مسلمان ملوث ہوتا دنیا بھر کے ایک ارب 30 کروڑ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا۔