لاہور (سچ خبریں) تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے جوڈیشل الاؤنس کو پنشن کا حصہ بنانے کیلئے شفیق الرحمٰن کی درخواست پر سماعت کی، پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیراعلیٰ، چیف سیکرٹری پنجاب سمیت دیگرافسران پیش ہوئے، عدالت نے درخواستگزار کو اجازت دی کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب کو درخواست میں فریق بنا سکتے ہیں، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ملک اختر جاوید نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ4 آئینی درخواستیں ہائیکورٹ میں زیر التواء ہیں، درخواستوں میں ہائیکورٹ انتظامی کمیٹی کے فیصلے پر عملدرآمد کی استدعا کی گئی، یہ فیصلہ انتظامی نوعیت کا ہے، جبکہ آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت عدالتی حکم عدولی پر ہی توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے، انتظامی کمیٹی ہائیکورٹ کا نوٹیفکیشن عدالتی نوعیت کا نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے لاء افسر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ عدالتی فیصلہ آپ پیش کر رہے ہیں وہ فیصلہ تو مسترد ہوچکا ہے، مجھے بتائیں وزیراعلیٰ کو آئین کے تحت کوئی استثنیٰ حاصل ہے؟ ہوسکتا ہے آج مجھے وزیراعلیٰ پر توہین عدالت کی کارروائی کرنا پڑ جائے،قانون کے تحت تو گورنر اور صدر کو استثنیٰ حاصل ہے۔
پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیراعلیٰ نے کہا کہ وزیراعلیٰ توہین عدالت کا سوچ بھی نہیں سکتے، وزیراعلیٰ نے سمری ملتے ہی فوری منظوری دے دی تھی۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا میں وزیراعلیٰ کے اس کیس میں فریق ہونے کا ڈکلیئر کرنے لگا ہوں، کل صبح 11 بجے تک آرڈیننس جاری ہوا تو پھر دیکھ لوں گا،اس حکومت نے8 گھنٹے کے اندر بھی کئی ایسے کام کیےہیں۔
درخواستگزاروں نے مؤقف اختیارکیا کہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں عدالتی ملازمین کی پنشن میں جوڈیشل الاؤنس شامل کیا جا چکا ہے۔ استدعا ہے کہ پنجاب میں بھی عدالت جوڈیشل الاؤنس کو پنشن کا حصہ بنانے کا حکم دے۔ عدالت نے سرکاری وکلاء کی درخواست پر کل شام5 بجے تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کل شام 5 بجے تک اگریہ کام نہیں ہوا تو وزیراعلیٰ کو طلب کرکے اسی وقت شوکاز نوٹس دیں گے اور رات 9 بجے فرد جرم عائد کرکے اگلے روز اتوارکو فیصلہ کردوں گا۔