لاہور: (سچ خبریں) لاہور ہائیکورٹ نے ماتحت عدلیہ کے ججز کی تعیناتی کے لیے حکومت کو تین ہفتے کی مہلت دے دی۔لاہور ہائی کورٹ میں انسداد دہشتگری عدالت ون راولپنڈی سے کیسز دوسری عدالت میں منتقل کرنے کی پنجاب حکومت کی درخواست پر سماعت ہوئی، ججز تعنیات کرنے والی کمیٹی کے ممبران مریم اورنگزیب، مجتبی شجاالرحمن اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ حکومت پنجاب نے راولپنڈی، لاہور اور فیصل آباد میں اے ٹی سی کورٹس میں ججوں کے تقرر کے لیے رجسٹرار کو خط لکھے، اے ٹی سی گوجرانولہ لیبر کورٹس میں ججوں کی تقرری کے رجسٹرار کو تین تین نام بھجواے کہ ان میں ایک ایک جج لگا دیا جائے، قانون کی منشا کے مطابق ججوں کے پینل کے نام بھجوائے، عدالت میں سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگ زیب اور وزیر مجتبی شجاع الرحمن موجود ہیں۔
صوبائی وزیر مریم اورنگ زیب نے عدالت کو حکومتی موقف سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہم شفاف طریقے سے ججوں کی تقرریاں کرنا چاہتے ہیں، وزیر قانون پنجاب صہیب احمد نے کہا کہ قانون کے تحت ججوں کی تقرریاں ہوں گی۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ اپ نے ججوں کی تقرریوں کی بابت بار بار کیوں یقین دہائی کرائی جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ پراسس مکمل کرنے کے بعد رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کو خط لکھا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعلی نے کبھی مجھ سے مشاورت کے لیے کہا؟ ہم نے کیس میں نوٹس کیے اور کئی بار ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بلایا، مجھے اپ لوگوں کو بلانے کا کوئی شوق نہیں، شوق ہوتا تو پہلے روز چیف منسٹر کو بلا لیتا، ہمارے لیے سیاست دان انتہائی قابل احترام ہیں، یہ سسٹم تو چلتا رہے گا، لیکن ہم بھی کیا کریں لوگ ہمیں چیختے ہیں کہ فیصلے کریں، ججز تعنیات ہوں گے تو فیصلے ہوں گے۔
مریم اورنگ زیب نے کہا کہ حکومت پنجاب نے کمیٹی بنا دی ہے، اپ ججوں کا پینل دے دیں اس میں سے ججوں کا تقرر کر دیں گے، جس پر جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے کہا کہ قانون میں کہا لکھا ہے چیف جسٹس حکومت کو ججوں کا پینل دے گا، اپ مجھ سے غیر قانونی ڈیمانڈ نہ کریں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اے ٹی سی ججوں کی تقرری کتنے دنوں میں ہونی ہے، فیصلے کتنے روز میں ہونے ہیں جس پر وزیر قانون نے جواب دیا کہ 7 روز میں فیصلہ کرنا ضروری ہے۔ بعد ازاں، سیکرٹری قانون پنجاب نے عدالت میں ججوں کی تقرری کا طریقہ کار اور قانون پیش کردیا۔
وزیر قانون نے کہا کہ اپ حکومت کو دو یا تین تین نام دے دیں اس میں سے ایک ایک کو جج لگا دیا جائے گا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کس قانون کے تحت ججوں کے ناموں کا پینل آپ کو دوں، اگر قانون کے مطابق ججوں کی تقرریاں کی جاتی تو معاملہ یہاں تک نہ آتا، اپ ججوں کی تقرریاں کریں، بے شک میرے ساتھ تعاون نہ کریں، ہم قانون اور آئین کی بالادستی چاہتے ہیں۔
عدالت نے بروقت ججوں کا تقرر نہ کرنے پر مایوسی کا اظہار کیا جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے ججوں کے تقرر پر از سر نو غور کرنے کے لیے مہلت مانگی۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ تین ہفتے میں ججز کی تعیناتی کرکے رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔ عدالت نے حکومتی کمیٹی سے پیر کے روز تک پیش رفت رپورٹ بھی طلب کرلی۔
سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ججز تعینات کے لئے کمیٹی بنائی تھی جس میں لاء منسٹر شامل ہیں، جج صاحب نے بلایا تھا کہ اوپن کورٹ میں بات کریں درخواست کی تھی کہ چیمبر میں بات کرلیتے لیکن اب سماعت ہوگئی ہے، پیر کا وقت دیا ہے امید ہے منافع بخش سماعت ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے ہمیشہ ججز اور عدالتوں کا احترام کیا ہے، ہم نے کبھی عدالتوں پر دھاوے نہیں بولے یا اوئے کہہ کر نہیں پکارا، ہم نے احترام کے ساتھ گھنٹوں کھڑے ہوکر نا حق سزائیں بھی کاٹی ہیں، قانون کے احترام کیا ہے اس وجہ سے آج سرخرو ہوئے ہیں، منگل کو یہ کیس آیا ہم نے کام شروع کیا اور آج دیکھیں ہم جج صاحب کے سامنے پیش ہوگئے ہیں۔