اسلام آباد: (سچ خبریں) امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے آئندہ عام انتخابات میں پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر فوج کی موجودگی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن میں فوج کو آن کال ہونا چاہیے اور جہاں ضرورت پڑے وہاں طلب کر لیں لیکن بلاضرورت تناؤ کا ماحول بنانا مناسب نہیں ہے۔
ڈان نیوز کے پروگرام ’ڈان نیوز اسپیشل‘ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ہماری انتخابات کے حوالے سے تیاریاں مکمل ہیں، حلقوں میں امیدواروں کا چناؤ کر کے انتخابی منشور تیار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ سیاسی جماعتیں جنہوں نے ایک بار نہیں بار بار حکومت کی ہے وہ ناکام ہو چکی ہیں اور بے نقاب ہو چکے ہیں تو اب ہمارے لیے مناسب موقع ہے کہ عوام کو ایک متبادل چوائس ملے اور جماعت اسلامی اس وقت میدان میں کھڑی ہے۔
لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے سراج الحق نے کہاکہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ سب کو یکساں ماحول مہیا کیا جائے، اس الیکشن پر لوگوں کا اعتماد ہو، اسی صورت میں لوگ گھروں سے نکل کر ووٹ ڈالنے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہوں گے اور انتخابات کے نتائج کو قبول کریں لیکن اگر قبل از وقت الیکشن پر اس طرح کے اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں تو پھر اس کے نتائن بھی متنازع ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں آئندہ انتخابات میں اکثر علاقوں میں مختلف جماعتیں آئیں گی اور کسی ایک جماعت کے لیے پورے ملک کی سطح پر آنا ان حالات میں مشکل ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماضی میں بھی مخلوط نظام بنا تھا اور اب بھی جو اسمبلی ہو گی اس میں مختلف جماعتیں نظر آئیں گی۔
انتخابات میں جماعت کی توقعات سے کمتر پرفارمنس کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کا الیکشن سسٹم آزاد نہیں ہے اور 70 کی دہائی سے ہم یہی سنتے آ رہے ہیں کہ پہلے پارٹی کا، وزیراعظم کا اور وزیراعلیٰ کا چناؤ ہوتا ہے اور پھر الیکشن ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ باقی دنیا میں تو جمہوریت آگے بڑھی ہے، ہماری جمہوریت ہر وقت صابن پر نظر آتی ہے، اگر آزادانہ ماحول میں ووٹر کو موقع دیا جاتا ہے اور ان نتائج کی چوری نہیں ہوتی ہے تو آئندہ انتخابات میں جماعت ایک بڑی جماعت کے طور پر ابھرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے غیرجانبدار رہنے سے جمہوریت اور سیاست مضبوط ہو گی اور پاکستان آگے بڑھے گا ، جب بھی یہ لوگ غیرجانبدار نہیں ہوتے تو ناصرف ان کے اپنے کپڑے داغدار ہوتے ہیں بلکہ ملک اور جمہوریت کا بھی نقصان ہوتا ہے تو ہم اس لیے یہی چاہتے ہیں کہ ماضی میں جو غلطیاں ہو چکی ہیں ، موجودہ الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن ان غلطیوں کو نہ دہرائے۔
امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے سوال پر امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ امن و امان تنہا کوئی چیز نہیں، اس کا تعلق معیشت کے ساتھ بھی ہے، اس کا تعلق قانون کی بالادستی کے ساتھ بھی ہے، ایک اچھی حکومت اور کامیاب ملک میں امن ہوتا ہے، معیشت بہتر ہوتی ہے اور وہاں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے، پاکستان میں تو ایک طویل عرصے سے یہ تینوں چیزیں نظر نہیں آرہیں لیکن اگر امن و امان خراب ہے تو کیا اس کا بدلہ جمہوریت سے لیا جائے، عوام سے لیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اگر گورنر خیبر پختونخوا کہتے ہیں کہ امن و امان خراب ہے تو وہ اپنی ذمے داری بھی تسلیم کریں ، وہی تو گورنر ہیں جن کے پاس اختیارات ہیں ، اگر وہ خود یہ بات کہہ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ناکام ہو گئے ہیں، اگر گورنر یا وزیر اعلیٰ ایسا کہتے ہیں تو یہ اپنی نالائقی اور نااہلی کا اعتراف ہے لیکن امن و امان چاہے کتنا ہی خربا ہو، اس کی بہتری کے لیے الیکشن ضروری ہے، انتخابات ہر حال میں ہونے چاہئیں تاکہ عوام اپنے لیے نئی حکومت اور قیادت کا انتخاب کرے۔
پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر فوج کی موجودگی کے حوالے سے سوال پر سراج الحق نے کہا کہ ہمارے الیکشن کمیشن کو دیکھنا چاہیے کہ باقی ملکوں میں الیکشن کس طرح منعقد ہوتے ہیں، انہیں دیکھنا چاہیے کہ بھارت، برطانیہ، امریکا، فرانس میں کس طرح سے الیکشن کے انتظامات ہوتے ہیں ، الیکشن کمیشن پہلے کیسے طے کر سکتا ہے کہ یہاں گڑبڑ اور بدانتظامی ہو گی، میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن میں فوج آن کال ہو اور جہاں ضرورت پڑے وہاں طلب کر لیں لیکن بلاضرورت تناؤ کا ماحول بنانا مناسب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لوگ بہت باشعور اور پرامن ہیں، اگر کسی جگہ خطرہ موجود ہے کہ پولیس وہاں صورتحال سنبھال نہیں سکے گی تو فوج کو آن کال رکھیں، سب جگہ ٹینشن کا ماحول بنانا مناسب نہیں ہے، فوج کو اگر حالات کے مطابق استعمال کرتے ہیں تو وہ مثبت ہے۔