اسلام آباد: (سچ خبریں)توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو دوبارہ تحریری جواب جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 8 ستمبر تک ملتوی کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے آج کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل حامد خان سے مکالمہ کیا کہ جو جواب پڑھا مجھے اس کی توقع نہیں تھی، حامد خان آپ صرف عمران خان کے وکیل نہیں عدالت کے معاون بھی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ توقع یہی تھی آپ یہاں پر آنے سے پہلے ماتحت عدلیہ سے ہو کر آئیں گے، آپ کے تحریری جواب سے مجھے دکھ ہوا، جس ماتحت عدلیہ پر بات کی گئی وہ عام آدمی کی عدالت تھی، عام آدمی کو آج بھی ہائیکورٹ سپریم کورٹ تک رسائی نہیں ملتی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ عمران خان کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے انہوں نے جوڈیشل کمپلیکس بنایا، گزرا ہوا وقت زبان سے کہی ہوئی چیز واپس نہیں جا سکتی، مجھے توقع تھی کہا جائے گا غلطی ہوئی ہے، توقع تھی آپ عدالتوں میں جاکر کہیں گیں آپ پر اعتبار ہے، عمران خان جیسے آدمی کو کیا ایسا کرنا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس عدالت عالیہ نے کہا کہ تشدد کا مسئلہ تو ہم نے بھی 3 سال سے اٹھایا، ٹارچر کی کسی بھی سطح پر اجازت نہیں دی جاسکتی، کیا کسی شخص کو لاپتہ کرنے سے بڑا کوئی ٹارچر ہوتا ہے؟ اسد طور ابصار عالم کے کیسز آپ دیکھ لیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 3 سال میں یہ عدالت وفاقی کابینہ کو معاملات بھیجتی رہی کاش اس وقت بھی یہ آواز اٹھاتے، جواب سے لگتا ہے کہ عمران خان کو احساس ہی نہیں کہ انہوں نے کیا کہا؟
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل کے بولنے پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس سائیڈ پر آجائیں اور خاموش ہو جائیں، یہ معاملہ عدالت اور توہین عدالت کے مرتکب کا ہے آپ بیٹھ جائیں۔
دریں اثنا عدالت نے شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر کو شہباز گل کیس کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کی جس پر سلمان صفدر نے کیس کا عدالتی فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شہباز گل ٹارچر کیس پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکم جاری کیا۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ میں عمران خان کے سارے بیانات ریکارڈ پر لے آتا ہوں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اڈیالہ جیل کس کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول میں ہے؟ کیا ٹارچر کی ذرا سی بھی شکایت ہو تو کیا جیل حکام ملزم کو بغیر میڈیکل داخل کرتے ہیں؟ یہ پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ سے کب نمٹائی گئی اور تقریر کب کی گئی؟
وکیل نے جواب دیا کہ پٹیشن 22 اگست کو نمٹائی گئی اور تقریر 20 اگست کو کی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا تھا تو تقریر کی گئی، پیکا آرڈنینس کے تحت اداروں پر تنقید کرنے والوں کو 6 ماہ ضمانت بھی نہیں ملنی تھی، اس عدالت نے اس کو کالعدم قرار دیا تو عدالت کے خلاف مہم چلائی گئی، عدالت نے اس کی کبھی پروا نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے توہین عدالت کے معاملے پر فردوس عاشق اعوان کی ججمنٹ پڑھی ہو گی، عدالت اوپن ہونا کلیئر میسج تھا کہ 12 اکتوبر 1999 دوبارہ نہیں ہو گا، عمران خان نے کہا کہ عدالتیں کیوں 12 بجے کھلیں، یہ عدالت کسی بھی کمزور یا آئینی معاملے کے لیے 24 گھنٹے کھلی ہے، انہوں نے بڑے اچھے انداز میں گلہ کیا، کاش اسی انداز میں ماتحت عدلیہ کے جج کو ایڈریس کرتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی لیڈر کی بہت حیثیت ہوتی ہے ہر وقت بہت اہم ہوتا ہے، اس عدالت کے کسی جج پر کوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا، سوشل میڈیا کو سیاستدانوں نے خراب کیا ہوا ہے، اس کورٹ نے کبھی بھی پرواہ نہیں کہ کہ اس کورٹ کے بارے میں کہا کہا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ مجھے ایک فلیٹ کا مالک بھی بنا دیا گیا، میری سپریم کورٹ کے ایک جج کے ساتھ فوٹو تھی جسے ایک سیاسی جماعت کا عہدیدار بنا کر وائرل کیا گیا۔
چیف جسٹس عدالت عالیہ نے کہا کہ ہمارے ادارے نے بھی بہت غلطیاں کی ہیں جن پر تنقید کو ویلکم کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر ججز کی تصویریں لگا کر الزامات لگائے جاتے ہیں، سیاسی جماعتیں اپنے فالوورز کو منع نہیں کرتی، آپ نے جواب میں کہا ہے مگر حقیقت میں احساس ہی نہیں، یہ عمران خان جیسے رہنما کا جواب نہیں ہے۔
عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ مجھے جواب کو واضح کرنے کا موقع دیا جائے، میں نے درخواست کے قابل سماعت نہ ہونے کا نکتہ بھی اٹھایا ہے، اس کے علاوہ بھی باتیں کی ہیں، جواب کا صفحہ نمبر 10 ملاحظہ کریں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کو ہم غلط استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل افسر کے بارے میں یہ کہیں۔
بعد ازاں عدالت کی جانب سے عمران خان کے وکلا کو دوبارہ جواب جمع کرانے کی ہدایت دے دی گئی۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ معاملے کی سنگینی کو سمجھیں، دانیال عزیز، طلال چوہدری اور نہال ہاشمی کیسز میں سپریم کورٹ کے فیصلے دیکھ لیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ تمام عدالتی کارروائی کو شفاف رکھیں گے، توہین عدالت کیسز پر سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل لازم ہے۔
دوران سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کی کارروائی آج ختم ہو سکتی تھی مگر اس جواب کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بتائیں کہ کیا اس کیس میں کسی کو عدالتی معاون بھی مقرر کریں، اس ملک میں تبدیلی تب آئے گی جب تمام ادارے اپنا کام آئین کے مطابق کریں۔
جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ آپ کو جواب داخل کرانے کا ایک اور موقع دیا گیا ہے، آپ اس پر سوچیں۔
بعد ازاں عدالت کی جانب سے کیس کی سماعت 8 ستمبر تک ملتوی کردی گئی۔