لاہور:(سچ خبریں) لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس انور حسین نے توشہ خانہ ریفرنس میں نااہلی کے بعد سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو عہدے سے ہٹانے کی درخواست چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو ارسال دی۔
جسٹس انور حسین نے کہا کہ جسٹس عابد حسین چٹھہ بھی اسی نوعیت کی درخواست پر سماعت کررہے ہیں، اس لیے دونوں درخواستوں کو اکٹھا کرنا مناسب ہوگا۔
جسٹس انور حسین نے مذکورہ درخواست چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو ارسال کرتے ہوئے سفارش کی کہ جسٹس عابد حسین اسی نوعیت کی درخواست پر سماعت کررہے ہیں اس لیے اس درخواست کو بھی اسی عدالت میں سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔
وکیل محمد آفاق کی جانب سے دائر مذکورہ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن نے سابق وزیراعظم کو کرپشن کے الزام میں نااہل قرار دیا اور انہیں این اے 95 میانوالی سے ڈی سیٹ کردیا۔
انہوں نے کہا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1976 اور پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کی دفعات کے تحت سیاسی جماعت کے عہدیداروں کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے معیار پر پورا اترنا چاہیے، تاہم عمران خان بطور پی ٹی آئی چیئرمین عہدے پر برقرار رہ کر ان قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
درخواست گزار نے اس کیس کا بھی حوالہ دیا جس میں سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہل قرار دینے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سربراہی سے ہٹا دیا تھا۔
درخواست گزار نے ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ وہ الیکشن کمیشن کو عمران خان کو پی ٹی آئی چیئرمین کے عہدے سے ہٹانے کا حکم دے اور پارٹی کے نئے سربراہ کی نامزدگی کی ہدایت جاری کرے۔
جسٹس انور حسین نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ایک درخواست چیف جسٹس کو ارسال کردی جس میں پنجاب میں افسران کے تبادلے اور تعیناتیوں کے لیے نگران حکومت کے اختیارات چیلنج کیے گئے تھے۔
جج نے اس حوالے سے الیکشن کمیشن اور نگران حکومت پنجاب کو نوٹس جاری کر دیا، تاہم الیکشن کمیشن کے ایک وکیل نے جج کو بتایا کہ اسی طرح کی درخواستیں 3 مختلف ججوں کے سامنے پہلے ہی زیر التوا ہیں۔
اس پر جسٹس انور حسین نے فائل چیف جسٹس لاہور ہوئی کورٹ کو ارسال کردی جس میں درخواست کی گئی کہ تمام یکساں درخواستوں کو ایک جج کے سامنے پیش کیا جائے۔
پی ٹی آئی کے سینیئر نائب صدر فواد چوہدری کی وساطت سے دائر کی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ نگران حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر تبادلوں/تعیناتیوں کو الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 230 کی شقوں پر جانچے بغیر الیکشن کمیشن سے منظور کروایا جا رہا ہے۔
عدالت سے استدعا کی گئی کہ الیکشن کمیشن کے 10 مارچ کو جاری کردہ غیر قانونی نوٹیفکیشن کو مسترد کیا جائے جس کے تحت الیکشن کمیشن نے نگران حکومت کو پیشگی منظوری لیے بغیر صوبے میں افسران کے تبادلے اور تعیناتیوں کی مکمل اجازت دے دی ہے۔