اسلام آباد:(سچ خبریں) ایک ماہ بعد جیل سے رہا ہونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے عمران خان سے زمان پارک میں ملاقات کی تاہم وہ ملاقات کے بعد صحافیوں کا جواب دیے بغیر ہی روانہ ہوگئے۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی شاہ محمود قریشی سے ملاقات ایک گھنٹے تک جاری رہی، تاہم ملاقات کے بعد آفیشل بیان جاری کیا گیا نہ ہی پریس کانفرس کی گئی، شاہ محمود قریشی صحافیوں سے بات کیے بغیر زمان پارک سے روانہ ہوگئے۔
دوسری جانب، پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شاہ محمود قریشی کی پی ٹی آئی چیئرمین سے ملاقات کی صرف ایک تصویر شئیر کی گئی جس کے بعد ملاقات کی اندرونی کہانی سے متعلق خاموشی چھائی رہی۔
یہ ملاقات اس لیے بھی اہم تھی کیونکہ حالیہ دنوں میں افواہیں گردش کررہی تھیں کہ عمران خان کی نااہلی کی صورت میں شاہ محمود قریشی پارٹی سنبھالیں گے، ساتھ ہی وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات بھی کریں گے۔
پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو سخت فیصلے کرنے پڑسکتے ہیں، ’یا تو وہ سیاسی حقائق کو تسلیم کرلیں یا پھر اس کی بھینٹ چڑھ جائیں‘۔
اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اگر عمران خان مقابلے یا محاذآرائی کی سیاست پر قائم رہے تو پارٹی مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوسکتی ہے ، پی ٹی آئی کو دوبارہ میدان میں آنے کے لیے کچھ وقت کی ضرورت ہے جو صرف اس صورت میں ممکن ہے جب عمران خان پارٹی اور سیاست سے الگ ہوجائیں’۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے بعد ہی پارٹی کو ہونے والے نقصان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور نئی شرائط پر بات چیت کے طریقے تلاش کیے جاسکتے ہیں۔
ایک اور پارٹی رہنما نے ڈان کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی بقا کے امکانات اس وقت ممکن ہیں جب عمران خان پارٹی کی ذمہ داریاں شاہ محمود قریشی کو سونپ دیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایسا کرنے سے شاہ محمود قریشی انتخابات کی تاریخ (جو ممکنہ طور پر اکتوبر یا نومبر میں ہوں گے) پر بات چیت کرسکتے ہیں اور اقتصادی مسائل کے ساتھ ساتھ انتخابات سے قبل نگراں سیٹ اپ پر پی ڈی ایم کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں، لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب عمران خان سیاست چھوڑ دیں اور 9 مئی کے پُرتشدد واقعات کے قانونی نتائج کا سامنا کریں’۔
انہوں نے بتایا کہ یہی وجہ تھی کہ شاہ محمود قریشی ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کیے بغیر روانہ ہوگئے اور نہ ہی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے تفصیلات سے آگاہ کیا۔
پارٹی رہنما کا کہنا تھا کہ زمان پارک میں ملاقات ہوئی اور (عمران خان کے لیے دستیاب) آپشن سامنے رکھے گئے تاکہ وہ ان آپشنز پر غور کرسکیں خاص طور پر فوج کے فارمیشن کمانڈر میٹنگ کی جانب سے سخت خبردار کیے جانے کے بعد، تاہم ملاقات کی باقی تفصیلات اگلے چند دنوں میں خود ہی ظاہر ہوجائیں گی۔
اس کے علاوہ پی ٹی آئی چیئرمین نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے سربراہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل نذیر احمد کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کیا اور کہا کہ وہ 9 مئی کو ان کی گرفتاری کے دوران ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر نیب کے سربراہ کو نااہل قرار دیا جائے۔
درخواست آئین کے آرٹیکل 209 اور نیب آرڈیننس کے سیکشن 6 کے تحت دائر کی گئی تھی، درخواست میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے استدعا کی کہ نیب کے سربراہ نے یکم مئی کو (چھٹی والے دن) ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جو نیب قانون کے سیکشن 24 کی خلاف ورزی ہے، درخواست میں لکھا گیا کہ شکایت کنندہ کی گرفتاری ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، گرفتاری کے دوران یہ تاثر دیا گیا کہ شکایت کنندہ کوئی دہشت گرد، ریاستی دشمن، مجرم یا مطلوب مفرور ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ یکم مئی 2023 کو گرفتاری کے وارنٹ پر عملدرآمد کے دوران پاکستان رینجرز (جو نیب کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں) شکایت کنندہ (عمران خان) کو بغیر کسی وجہ اور جواز کےگھسیٹا، مارا پیٹا اور زخمی کیا’۔
عمران خان نے چیئرمین نیب کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے استدعا کی کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس ان کے خلاف کارروائی کرنے کا ’دائرہ اختیار‘ ہے جس بنیاد پر اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہوتی ہے۔